بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ایک عورت کے بھوکے بچوں کا واقعہ


سوال

 ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ رعایا کی خبر گیری کے لیےگشت کر رہے تھے، چلتے چلتے دور نکل گئے ،واپسی میں ایک جھونپڑی پر نظر پڑی، دیکھا کہ ایک عورت چولہا جلاۓ بیٹھی ہے، چولہے پر ہانڈی چڑھی ہوئی ہے اور اس کے بچے رو رہے ہیں، عورت انہیں بہلا رہی ہے، مگر وہ کسی طرح خاموش نہیں ہو تے، بچوں کو روتا بلکتا دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دل بھر آیا ،عورت کے پاس جا کر بچوں کے رونے کا سبب پوچھا، اس  نے بتایا : بچے بھوک کے مارے بلک رہے ہیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا:انہیں کھانا کیوں نہیں دیتی؟  میں اتنی دیر سے کھڑا دیکھ رہا ہوں ،چولہے پر ہانڈی چڑھی  ہوئی ہے، آخر یہ کب تک تیار ہوگی ؟ عورت نے جواب دیا:ہانڈی میں کچھ نہیں ہے، بچوں کو بہلانے کے لیےصرف پانی چڑھا دیا ہے، چاہتی ہوں کہ کسی طرح انہیں  نیند آ جائے، حضرت عمر  رضی اللہ عنہ نے دیکھا، واقعی ہانڈی میں صرف پانی اور کچھ کنکریاں تھیں، عورت کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا ،بچےبھوک سے بے حال ہو رہے تھے، ان کی تسلی کے لیے عورت نے چولہا جلا کر ہانڈی میں پانی اور کنکریاں ڈال دی تھیں؛ تاکہ بچے یہ سمجھیں  کہ کھانا پک رہا ہے، اسی انتظار میں  کچھ دیر میں انہیں  نیند آجائے اور سو جائیں  ،  اسی طرح رات گزر جائے  ،یہ دیکھ کر حضرت عمر  رضی اللہ عنہ بیت المال پہنچے، کھانے پینے کی کچھ چیزیں  لے کر اس عورت کے پاس گئے، کھانا تیار کرکے بچوں کو خوب پیٹ بھر کر کھلا یا ،کھانا کھانے کے بعد بچے خوش ہوکر سو گئے۔ کیا یہ واقعہ مستند اورصحیح ہے؟

جواب

سوال میں آپ نے جس واقعہ کے متعلق دریافت کیا ہے ،یہ واقعہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے "فضائل الصحابة "میں ذکر کیا ہے۔واقعہ کی مکمل تفصیل یہ ہے : امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:مصعب بن عبداللہ بن مصعب الزبیری  کہتے ہیں کہ میرے والد عبداللہ بن مصعب نے مجھے  بیان کیا،انہیں ربیعہ بن عثمان الہدیری نے  (اور) انہیں  زید بن اسلم نے بیان کیا ، زید بن اسلم اپنے والد (اسلم ،جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے غلام تھے)سےنقل کرتے ہیں:

ہم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ  حرۂ  واقم  نامی مقام کی طرف نکلے،یہاں تک کہ  ہم جب صرار ( مقام ) پرپہنچ گئے تو  دیکھا کہ آگ جل رہی ہے ، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اے اسلم !میں دیکھتا ہوں کہ یہاں کچھ سوار ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں  جو رات اور سردی کی وجہ سے عاجز اور بے بس معلوم ہوتے ہیں ،آؤ (اُن کے پاس) چلیں ۔ہم  تیز تیز جانے لگے یہاں تک کہ ان کے قریب پہنچ گئے ،دیکھا کہ ایک عورت کے ساتھ چھوٹے چھوٹےبچے  ہیں ، آگ پر ہنڈیا چڑھی  ہوئی ہے اور اس کے بچے روررہے ہیں ۔آپ رضی اللہ عنہ نےفرمایا: اے روشنی والو !السلام علیکم !(آپ  نےانہیں  اے آگ والو! کہنا پسند نہ کیا)، عورت نے جواب دیا : وعلیکم السلام ۔آپ  رضی اللہ عنہ نے فرمایا:کیا ہم قریب آجائیں ؟ عورت بولی :خیر سے قریب آجائیں یا ہمیں چھوڑ دیں ۔پھر جب ہم قریب ہوئے تو  آپ رضی اللہ عنہ  نے پوچھا : تمہیں کیا ہوا ہے ؟ عورت نے کہا:رات ہوچکی ہے اور سردی بھی ہے ۔آپ  رضی اللہ عنہ نے پوچھا :یہ بچے کیوں رو رہے ہیں ؟عورت نے جواب دیا :بھوک کی وجہ ۔آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا :ہانڈی میں کیا چیز (پک رہی ) ہے ؟ عورت نے جواب دیا :اس میں وہ ہے جس کے ذریعےمیں ان بچوں کو چپ کرا رہی ہوں؛ تاکہ یہ  سو جائیں ۔ہمارے اور عمر کے درمیان اللہ ہے ۔آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اللہ تجھ پر رحم کرے، عمر کو تمھارے حال کی کیاخبر ؟عورت نے کہا: عمر ہمارا حاکم ہوکر ہم سے غافل  ہے ۔

پھر آپ رضی اللہ عنہ  میری طرف متوجہ ہوئے اورفرمایا: چلو  ،اور ہم لوگ تیز تیز چلنے لگےیہاں تک کہ اس جگہ پہنچ گئے جہاں آٹا رکھنے کا اسٹور تھا۔آپ رضی اللہ عنہ نے آٹے کی ایک بوری اور چربی کا ایک ڈبہ نکالا اور فرمایا:یہ مجھ پر لاد دو ،میں نے کہا:آپ کے بجائے میں اسے اٹھا لیتا ہوں ،آپ رضی اللہ عنہ  نے کہا:تیری ماں نہ رہے ،کیا تو قیامت کے دن میرا  بوجھ اٹھائے گا؟تومیں نے  وہ  بوجھ آپ پر لاد دیا ،اور آپ رضی اللہ عنہ اسی عورت کی طرف جانے لگے اور  میں بھی آپ کے ساتھ چلنےلگا،ہم بھاگے بھاگے جارہے تھے ، (وہاں پہنچ کر) آپ نے  سامان اس عورت کے سامنے ڈال دیا اور تھوڑا سا آٹا نکال  کرعورت سے کہنے لگے:میں اسے ہوا میں اچھال کر صاف کرتا ہوں ،تم اس میں میرے ساتھ تعاون کرو۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ  (کھانا بنانے کے لیے)ہانڈی کے نیچے پھونکیں   مار نے لگے ،اور(جب کھانا  تیار ہوا تو) ہانڈی اتار  دی  اورکہنے لگے: کوئی چیز لے آؤ۔ وہ عورت  ایک برتن لے آئی، آپ رضی اللہ عنہ  نےکھانا اس برتن میں انڈیل دیا  اورپھراس سے کہنے لگے : تم انہیں کھلانا شروع کرو ، میں ان کے لیے (پلیٹ میں )پھیلاتا ہوں۔بچےکھانےلگےیہاں تک کہ وہ  سیر ہو گئےاور کچھ کھانا بچ بھی گیا ۔ اس کے بعد  آپ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور میں بھی  آپ کے ساتھ کھڑا ہوگیا ،وہ عورت کہنےلگی :اللہ تجھے جزائے خیر دے،امیر المومنین ( حضرت عمر رضی اللہ عنہ)کے بجائے تمہیں ہی صاحبِ اقتدار (خلیفہ ) ہونا چاہیے تھا،آپ رضی اللہ عنہ  نے فرمایا:جب تم امیر المومنین کے پاس جاؤ تو اچھی بات کہنا اور وہیں  ان شاء اللہ مجھ سے بھی بات کرنا ۔

پھر آپ  ایک طرف ہوگئے، اور پھر  اس کی طرف متوجہ ہو کر زانو  کے  بل بیٹھ گئے۔  ہم نے آپ سے  کہا: ہمارا مقصود تو کچھ اور  ہے ۔آپ  نےمجھ سے کوئی بات چیت نہیں کی ،یہاں تک کہ میں نے بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھا ،پھر وہ (تھک کر)  سوگئےاور آرام کرنے لگے تو  آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اے اسلم !بھوک نے ان کی نیند ختم کررکھی تھی اور انہیں رُلا دیا تھا ،اس لیے میں نے چاہا کہ میں اس وقت تک واپس نہ جاؤں جب تک کہ میں وہ نہ  دیکھ لوں جو میں  اب دیکھ چکا ۔

"فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل"میں ہے:

"ذَكَرَ مُصْعَبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُصْعَبٍ الزُّبَيْرِيُّ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُصْعَبٍ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ عُثْمَانَ الْهُدَيْرِيِّ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ إِلَى حَرَّةَ وَاقِمٍ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِصِرَارٍ إِذَا نَارٌ، فَقَالَ: يَا أَسْلَمُ، إِنِّي لَأَرَى هَا هُنَا رَكْبًا قَصَّرَ بِهِمُ اللَّيْلُ وَالْبَرْدُ، انْطَلِقْ بِنَا، فَخَرَجْنَا نُهَرْوِلُ حَتَّى دَنَوْنَا مِنْهُمْ، فَإِذَا بِامْرَأَةٍ مَعَهَا صِبْيَانٌ صِغَارٌ وَقِدْرٌ مَنْصُوبَةٌ عَلَى نَارٍ وَصِبْيَانُهَا يَتَضَاغَوْنَ، فَقَالَ عُمَرُ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَا أَصْحَابَ الضَّوْءِ، وَكَرِهَ أَنْ يَقُولَ: يَا أَصْحَابَ النَّارِ، فَقَالَتْ: وَعَلَيْكَ السَّلَامُ، فَقَالَ: أَدْنُو؟، فَقَالَتِ: ادْنُ بِخَيْرٍ أَوْ دَعْ، فَدَنَا فَقَالَ: مَا بَالُكُمْ؟ قَالَتْ: قَصَّرَ بِنَا اللَّيْلُ وَالْبَرْدُ، قَالَ: فَمَا بَالُ هَؤُلَاءِ الصِّبْيَةِ يَتَضَاغَوْنَ؟ قَالَتِ: الْجُوعُ، قَالَ: فَأَيُّ شَيْءٍ فِي هَذِهِ الْقِدْرِ؟ قَالَتْ: مَا أُسْكِتُهُمْ بِهِ حَتَّى يَنَامُوا، وَاللَّهُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ عُمَرَ، فَقَالَ: أَيْ رَحِمَكِ اللَّهُ، وَمَا يُدْرِي عُمَرَ بِكُمْ؟ قَالَتْ: يَتَوَلَّى عُمَرُ أَمْرَنَا ثُمَّ يَغْفُلُ عَنَّا. قَالَ: فَأَقْبَلَ عَلَيَّ فَقَالَ: انْطَلِقْ بِنَا، فَخَرَجْنَا نُهَرْوِلُ حَتَّى أَتَيْنَا دَارَ الدَّقِيقِ، فَأَخْرَجَ عِدْلًا مِنْ دَقِيقٍ وَكَبَّةً مِنْ شَحْمٍ، فَقَالَ: احْمِلْهُ عَلَيَّ، فَقُلْتُ: أَنَا أَحْمِلُهُ عَنْكَ، قَالَ: أَنْتَ تَحْمِلُ عَنِّي وِزْرِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا أُمَّ لَكَ؟ فَحَمَلْتُهُ عَلَيْهِ فَانْطَلَقَ، وَانْطَلَقْتُ مَعَهُ إِلَيْهَا، نُهَرْوِلُ، فَأَلْقَى ذَلِكَ عِنْدَهَا وَأَخْرَجَ مِنَ الدَّقِيقِ شَيْئًا، فَجَعَلَ يَقُولُ لَهَا: ذُرِّي عَلَيَّ، وَأَنَا أُحَرِّكُ لَكِ، وَجَعَلَ يَنْفُخُ تَحْتَ الْقِدْرِ ثُمَّ أَنْزَلَهَا، فَقَالَ: أَبْغِينِي شَيْئًا، فَأَتَتْهُ بِصَحْفَةٍ فَأَفْرَغَهَا فِيهَا ثُمَّ جَعَلَ يَقُولُ لَهَا: أَطْعِمِيهُمْ وَأَنَا أُسَطِّحُ لَهُمْ، فَلَمْ يَزَلْ حَتَّى شَبِعُوا، وَتَرَكَ عِنْدَهَا فَضْلَ ذَلِكَ، وَقَامَ وَقُمْتُ مَعَهُ، فَجَعَلَتْ تَقُولُ: جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا، كُنْتَ أَوْلَى بِهَذَا الْأَمْرِ مِنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ، فَيَقُولُ: قُولِي خَيْرًا إِذَا جِئْتِ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، وَحَدَّثِينِي هُنَاكَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ تَنَحَّى نَاحِيَةً عَنْهَا ثُمَّ اسْتَقْبَلَهَا فَرَبَضَ مَرْبَضًا، فَقُلْنَا لَهُ: إِنَّ لَنَا شَأْنًا غَيْرَ هَذَا، وَلَا يُكَلِّمُنِي حَتَّى رَأَيْتُ الصِّبْيَةَ يَصْطَرِعُونَ ثُمَّ نَامُوا وَهَدَأُوا، فَقَالَ: يَا أَسْلَمُ، إِنَّ الْجُوعَ أَسْهَرَهُمْ وَأَبْكَاهُمْ، فَأَحْبَبْتُ أَنْ لَا أَنْصَرِفَ حَتَّى أَرَى مَا رَأَيْتُ".

(فضائل أمير المؤمنين عمر بن الخطاب رضي الله عنه، ج:1، ص:290، رقم:382، ط:مؤسسة الرسالة-بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144406101150

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں