بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے انصاف سے متعلق ایک پڑھیا کا واقعہ


سوال

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا انصاف:

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کاگزر ایک بوڑھی عورت کے پاس سے ہوا، انہوں نے اس سے فرمایا :عمر کو تمہارے حال کی کیا خبر ؟اس نے جواب دیا: میں نہیں سمجھتی کہ کسی کو لوگوں کا حاکم بنا دیا جائے اور وہ ان کے احوال سے بے خبر ہو ،یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ رو پڑے اور اپنے آپ کو مخاطب کرکے فرمایا :ہر کوئی مجھ سے زیادہ سمجھدار ہے حتی کہ بوڑھی عورت بھی، اور اس سے معافی اور در گزر کی درخواست کر کے اس کو رقم کی ایک مقدار عطا فرمائی  (نفحة الادب) ۔کیا یہ واقعہ صحیح ہے؟

جواب

سوال میں آپ نے   "نفحة الأدب"مؤلفہ مولانا وحید الزمان کیرانوی رحمہ اللہ کے حوالے سے  حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے انصاف سے متعلق جو واقعہ ذکرکرکے اس کے متعلق دریافت کیا ہے، یہ واقعہ علامہ دمیری رحمہ اللہ  نے "حياة الحيوان الكبرى"میں، شخ محمد دیاب التلیدی رحمہ اللہ نے "إعلام الناس بما وقع للبرامكة مع بني العباس"میں اورشیخ محمد بن عبد اللہ جردانی رحمہ اللہ نے"مصباح الظلام شرح نيل المرام من أحاديث الأنام"میں ذکر کیا ہے، بعد ازاں دیگر مختلف کتب میں بھی یہ واقعہ مذکور ہے۔ "حياة الحيوان الكبرى"میں واقعہ کے مکمل الفاظ درج ذیل ہیں:

"ولمّا رجعَ -رضي الله تعالى عنه- مِن الشّام إلى المدينة، انفردَ عن الناس لِيَتعرَّف أخبارَ رعيَّتِه، فَمرّ بِعجوزٍ في خِبائها فَقصدَها، فَقالتْ: َيا هَذا مَا فعلَ عمرُ؟ قال: قد أقبلَ مِن الشّام سالماً، فَقالتْ: لَا جَزاهُ اللهُ عنِّي خيراً، قالَ: ولِمَ؟ قالتْ: لأنّه واللهِ ما نالَنيْ مِن عَطائَِه مُنذ ولِيَ أمرَ المؤمنين دينارٌ ولا درهمٌ، فقال: وما يَدري عمرُ بِحالِك وأنتَ في هَذا الموضع؟ فَقالتْ: سُبحانَ الله! واللهِ مَا ظننتُ أنَّ أحداً يلِيَ على الناس، ولا يَدري ما بينَ مشرقِها ومغربِها. فَبكى عمرُ ۔رضي الله تعالى عنه۔، وقال: واعُمراه! كلُّ أحدٍ أفقهُ مِنك حتّى العجائز يا عمر. ثمّ قال: يا أمةَ الله! ‌بِكم ‌تَبِيعينيْ ‌ظُلامتِك ‌ِمن ‌عمر، فإنِّي أرحمُه مِن النار، فَقالتْ: لا تَهزأْ بِنا يَرحمُك الله! فَقال: لستُ بِهزاءْ، فَلم يزلْ بِها حتّى اشترى مِنها ظُلامتَها بِخمسةٍ وعشرين دِيناراً. فَبينما هو كَذلك، إذْ أقبلَ عليًُّ بنُ أبي طالبٍ وابنُ مسعودٍ، فَقالا: السّلامُ عليك يَا أميرَ المؤمنين، فوضعتِ العجوزُ يدَها على رأسِها، وقالتْ: واسَوأتاه! شَتمتُ أميرَ المؤمنين في وجهِه، فَقالَ لها عمرُ- رضي الله عنه-: لا بأسَ عَليك رحِمكَ الله. ثمّ طلب رُقعةً يكتبُ فيها، فَلم يَجدْ، فَقطعَ قِطعةً مِن مرقَّعتِه وكتبَ فيها: بِسمِ اللهِ الرحمنِ الرحيمِ: هَذا مَا اشترى عمرُ مِن فُلانةٍ ظُلامتَها مُنذُ ولِيَ إلى يومٍ كَذا وكَذا بِخمسةٍ وعشرين ديناراً، فَما تدّعيْ عند وُقوفِه في المحشرِ بَين يدي اللهِ تَعالى فَعمرُ منه بريءٌ، شهِد على ذلك عليُّ بنُ أبي طالبٍ وابنُ مسعودٍ -رضي الله تعالى عنهما-،ثمّ دفعَ الكتاب إلى ولدِه، وقال: إذا أنا متُّ فَاجعلْه في كَفنيْ، ألقى بِه ربِّي".

(حياة الحيوان الكبرى، خلافة عمر الفاروق رضي الله عنه، 1/79، ط: دار الكتب العلمية-بيروت/إعلام الناس بما وقع للبرامكة، عمر والعجوز المدينة، ص:10، ط: دار الكتب العلمية-بيروت/مصباح الظلام، حرف الحاء، ص:372، ط: دار الكتب العلمية-بيروت)

ترجمہ:

’’جب(  حضر ت) عمر رضی اللہ عنہ شام سے مدینہ روانہ ہوئےتو(راستے میں ایک جگہ )  آپ لوگوں سے الگ تھلگ ہوگئے تاکہ رعایا کے احوال کی خبرگیری کریں،چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ  کاگزر ایک بڑھیا کے خیمے پرہواتو آپ اس کے پاس چلےگئے،بڑھیاکہنے لگی : اےشخص عمر کی کیاخبرہے؟  آپ  رضی اللہ عنہ نے فرمایا:شام سے صحیح سالم  واپس ہوا ہے، کہنے لگی :اللہ تعالی اُسے میری طرف سے بہتربدلہ نہ دے،آپ رضی اللہ عنہ  نے فرمایا: کیوں؟ کہنےلگی:اللہ کی قسم! جب سے وہ مسلمانوں کا حاکم بنا ہےمجھے اس نےاپنا عطایا میں سے نہ  تو ایک دیناردیا ،نہ ہی ایک درہم، آپ رضی اللہ عنہ  نے  فرمایا :عمر کو تیرےحال  کی کیا خبر  جب کہ تواس جگہ میں ہے؟! وہ کہنے لگی: سبحان اللہ! (یعنی تعجب کی بات ہے)اللہ کی قسم! میں نہیں سمجھتی کہ کسی کو لوگوں کا حاکم بنا دیا جائے اور اسے اپنی رعایا کے مشرق ومغرب کے مابین کی خبر نہ ہو(یعنی اسےاپنی پوری رعایا کے احوال کی خبر نہ ہو) ۔یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ رو پڑے اور اپنے آپ کو مخاطب کرکے فرمانے لگے :ہائے عمر!ہر کوئی تجھ سے زیادہ سمجھدار ہےاےعمر! یہاں تک کہ ایک  بڑھیا بھی۔پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اس سےپوچھا:اے اللہ کی بندی!تو عمر کو اپنی داد خواہی   کتنے میں بیچےگی( اور قیامت کے دن اپنے دعوے سے   دست برداری ہوگی)؟ وہ میرے لیے دوزخ  سے چھٹکارے کا پروانہ  ہوگا، بڑھیا کہنے لگی:اللہ آپ پر رحم کرے!آپ میرے ساتھ مذاق نہ کریں، آپ  رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں  مذاق نہیں کررہا،پھر بارباراس سے پوچھتےرہےیہاں تک کہ پچیس دینار   کے بدلے  میں اس کی داوخواہی خرید لی۔اسی دوران(  حضرت) علی بن ابی طالب اور(حضرت عبد اللہ) بن مسعود رضی اللہ  عنہ  بھی وہاں تشریف لائے اور انہوں نے  عرض کیا:السّلامُ عليك يا أميرَ المؤمنين!(امیر المؤمنین! آپ  پر سلامتی ہو)، یہ سن کر بڑھیا نے اپنے سر پر ہاتھ  مارااور کہنے لگی:ہائے میرابرا ہو! میں نے  امیرالمومنین کے منہ پر انہیں برابھلا کہہ دیا،آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:کوئی بات نہیں اللہ تجھ پر رحم کرے!۔پھر آپ نے لکھنے کے لیے کا غذمنگوایا ،کا غذ نہیں ملا تو آپ   نے اپنے پیوند زدہ کپڑوں  میں سے ایک ٹکڑا کاٹا اور اس میں لکھا:

"بِسمِ اللهِ الرحمنِ الرحيمِ: هَذا مَا اشترى عمرُ مِن فُلانةٍ ظُلامتَها مُنذُ ولِيَ إلى يومٍ كَذا وكَذا بِخمسةٍ وعشرين ديناراً، فَما تدّعيْ عند وُقوفِه في المحشرِ بَين يدي اللهِ تَعالى فَعمرُ منه بريءٌ، شهِد على ذلك عليُّ بنُ أبي طالبٍ وابنُ مسعودٍ -رضي الله تعالى عنهما-"(شروع اللہ کے نام سےجوبڑا مہر بان نہایت رحم والا ہے:یہ وہ  معاملہ ہے جس پرعمر نے اپنی ابتدائے خلافت سے آج فلاں دن تک کی فلاں بڑھیا کی دادخواہی کو پچیس دینار کے بدلہ  میں خرید لیا، اب اگر میدانِ محشر میں وقوف کے وقت وہ  اللہ تعالی کے سامنے  کوئی دعوی کرےگی تو عمر اس سے بر ی ہے(حضرت) علی بن ابی طالب اور(حضرت عبد اللہ) بن مسعود رضی اللہ عنہ(میرے) اس معاملے پر گواہ ہیں)،  بعد میں آپ نے یہ تحریر اپنے بیٹے کودی اور اس سے کہا:جب میرا انتقال ہوجائے تو (تدفین کے وقت) اسے میر ے کفن میں رکھ دینا، میں اس کے ساتھ اپنےرب سے ملاقات کرناچاہتاہوں‘‘۔

 مذکورہ تمام کتب میں یہ واقعہ  کسی سند کے بغیر مذکور ہے، اس لیے اس واقعہ کو ذکر کرتے وقت ان کتابوں کے حوالے کے ساتھ ذکر کریں کیوں کہ یہ تاریخی بات ہے اور یہ حضرات غیر معتبر لوگ نہیں ہیں۔

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410101107

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں