بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے متعلق اہل تشیع کے بعض باطل خیالات


سوال

صحیح مسلم# 217 میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس نے کسی کو اللہ کا دشمن کہہ کر پکارا لیکن حقیقت میں وہ دشمن نہیں وہ الزام اسی کی طرف لوٹ جائے گا مستدرك الحاكم#3327 میں واقعہ موجود جس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت ابو ہریرہ کو اللہ کا دشمن کہہ رہے ہیں۔ آخر میں لکھا ہوا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے 3864 صحیح بخاری عمر رضی اللہ عنہ ( اسلام لانے کے بعد قریش سے ) ڈرے ہوئے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے ان مندرجہ بالا احادیث سے شیعہ حضرت عمرکی شان پر الزام لگاتے ان لوگوں کو کیا جواب دیا جائے؟

جواب

یہ اعتراض یا الزام قلت فہم یا حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے شدت بغض کی بنیاد پر ہی ذہن میں پیدا ہوسکتا ہے،در اصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کوصدقات وصول کرنے کے لیے عامل بناکر بھیجتے تو عامل کو قبول ہدایا سے رشوت کے شبہ کی وجہ سے منع فرماتے،اس لیےابن الهمام رحمہ اللہ کی ذکرکردہ  روایت کے مطابق جب  حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ کو گورنربناکر بھیجا،اور واپسی پر حضرت  عمر رضی اللہ عنہ نے جب ان کے پاس مال کی فراوانی دیکھی تو فوراپوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ ان کو تحفہ کے طور پر ملا ہے،اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو  عدواللہ(اللہ کا دشمن) کہہ کر مخاطب کرکے  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے الفاط دہرائے،اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے مصنف ابن عبد الرزاق اور مستدرک حاکم کی روایت کو دیکھ لیجیے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو بحرین کا گورنر بناکر بھیجا،واپسی پر جب مال کی فراوانی دیکھی تو وہی الفاظ کہہ کر مخاطب کیا ،جواب دینے پر معلوم ہوا کہ یہ ان کی تجارت سے حاصل شدہ نفع کا مال ہے،حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہونے کی حیثیت سے امت اور اپنی رعایا کے تمام معاملات میں نہایت محتاط اور بیدار مغز تھے،ان کی شدت احتیاط کا ہی یہ عالم تھا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جیسےجلیل القدر صحابی،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحبت یافتۂ  شخص، جب انھیں  ان پر بھی ذرا شک گزر گیا ہے تو ان کو بھی تنبیہ کرگزرے۔

مذکورہ واقعہ کو اس تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام  نے کوہ طور سے واپسی پر اپنی قوم کو گمراہ پایا تو غصے میں سخت مکالمہ سے بڑھ کر (جسمانی طور پر  بھی) حضرت ہارون علیہ السلام کے سر اور داڑھی کو پکڑ کر جھنجھوڑا تھا۔لیکن کوئی بھی شخص (معاذاللہ)اس واقعہ کو  نبیوں کے درمیان تکراروتنازع سے تعبیر نہیں کرتا۔

باقی یہ کہنا  کہ حضرت  عمر رضی اللہ عنہ ( اسلام لانے کے بعد قریش سے ) ڈرے ہوئے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے ،تو در اصل یہ ایک موقوف روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام لانے کے بعد  بنو سہم کے خوف سے گھر میں محصور ہوگئے تھے،کیونکہ گھر کے باہر قبیلہ کے لوگ ان کے اسلام لانے کی وجہ سے ان کے قتل کے درپے منتظر تھے،یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب  نہ تو جہاد کا حکم نازل ہوا تھا،اور نہ ہی ہجرت کا حکم دیا گیا تھا،مسلمان قریش کے مظالم سہتے ،تکلیفوں پر صبر کرتے تھے،ایسے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ قتل ہوجانے کے خوف سے گھر میں محصور ہوجاناان کے مرتبہ کے منافی نہیں،جس طرح  یہود جب حضرت عیسی علیہ السلام کے قتل کے  درپے ہوئے اور وہ مکان میں محصور ہوگئے توجب یہ ایک نبی کی شان  کے منافی نہیں تو ایک صحابی کی شان کے منافی کیسے ہوسکتا ہے۔

دوم یہ ہے کہ یہ حدیث امام بخاری رحمہ اللہ نےصحابہ کے فضائل اور انصار کے مناقب وفضائل کی کتاب کے تحت  باب: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے بیان میں ان کی شان کو بڑھانے کے لیےبیان کی ہے،شان کو گھٹانے کے لیے نہیں،نیزاس باب کی پہلی روایت حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے موقوفا مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے  اسلام لانے کے بعد ہم لوگ ہمیشہ عزت سے رہے۔اس کے بعد مذکورہ بالا حدیث کو موقوفا بیان کیا،توجب صاحب کتاب نے ایک روایت کو جس مقصد کے لیے بیان نہیں کیا تو کوئی اور  مذکورہ حدیث سے حضرت عمر رضی اللہ کی شان کو کم کرنا کیسے ثابت ہوسکتا ہے؟

فتح القدیر میں ہے:

"والأصل في ذلك ما في البخاري عن أبي حميد الساعدي قال «استعمل النبي صلى الله عليه وسلم رجلا من الأزد يقال له ابن اللتبية على الصدقة، فلما قدم قال: هذا لكم وهذا لي، قال عليه الصلاة والسلام: هلا جلس في بيت أبيه أو بيت أمه فينظر أيهدى له أم لا» قال عمر بن عبد العزيز: كانت الهدية على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم هدية واليوم رشوة، ذكره البخاري. واستعمل عمر رضي الله عنه أبا هريرة فقدم بمال فقال له: من أين لك هذا؟ قال: تلاحقت الهدايا، فقال له عمر رضي الله عنه: أي عدو الله هلا قعدت في بيتك فتنظر أيهدى لك أم لا، فأخذ ذلك منه وجعله في بيت المال وتعليل النبي صلى الله عليه وسلم دليل على تحريم الهدية التي سببها الولاية، ولهذا لو زاد المهدي على المعتاد أو كانت له خصومة كره عندنا."

(کتاب ادب القاضی،ج7،ص272،ط؛دار الفکر)

المستدرک علی الصحیحین میں ہے:

"عن محمد بن سيرين، عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال لي عمر: يا عدو الله وعدو الإسلام خنت مال الله، قال: قلت: لست عدو الله، ولا عدو الإسلام، ولكني عدو من عاداهما، ولم أخن مال الله، ولكنها أثمان إبلي، وسهام اجتمعت. قال: فأعادها علي وأعدت عليه هذا الكلام، قال: فغرمني اثني عشر ألفا، قال: فقمت في صلاة الغداة، فقلت: اللهم اغفر لأمير المؤمنين فلما كان بعد ذلك أرادني على العمل، فأبيت عليه، فقال: ولم وقد سأل يوسف العمل وكان خيرا منك؟ فقلت: إن يوسف نبي، ابن نبي، ابن نبي، ابن نبي، وأنا ابن أميمة وأنا أخاف ثلاثا واثنتين قال: أولا تقول خمسا؟ قلت: لا قال: فما هن؟ قلت: «أخاف أن أقول بغير علم، وأن أفتي بغير علم، وأن يضرب ظهري، وأن يشتم عرضي، وأن يؤخذ مالي بالضرب» هذا حديث بإسناد صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه "

(کتاب التفسیر،ج2،ص378،ط؛دار الکتب العلمیۃ)

الکوکب الدری میں ہے:

"‌‌[باب في هدايا الأمراء]

وقوله [لعن رسول الله الراشي والمرتشي في الحكم] أي إذا رشى ليحكم له خلاف الحق فهو ملعون سواء أخذ للحكم على وفاق الحق أو على خلافه وذلك لأن البذل لدفع الجور جائز للباذل لا للمبذول له كيف وأن النبي صلى الله عليه وسلم أعطى بعض من خاف عليه أن يهجوه من الشعراء، وإنما ذكر المؤلف لا تصيبن شيئًا إلخ، في باب هدايا الأمراء إيذانًا منه بأن الهدايا المختصة بالأمراء، وكذا الضيافات الخاصة بهم هي داخلة في الإصابة المنهية عنه بقوله عليه السلام: لا تصيبن، ثم لما كان يعلم من ذلك كله أن الدعوة لا يجوز لهم بين بعد ذلك باب الراشي ليعلم أن الموجب للنهي هو الرشوة، وأما إذا تحقق بوجه من وجوه التحقيق أنه (1) ليس للرشوة فلا ضير في قبوله واستدل عليه بقوله صلى الله عليه وسلم لو أهدى إلى كراع وهو مستدق الزراع من ساق الشاة وغيرها، وهو أيضًا اسم موضع والمراد في الأول هو الأول والثاني يحتمل كليهما، وجه الاستدلال أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يقبلهما لتحقق أنه لا يرتشي وأنهم لا يعطونه رشوة فكذلك الحكم لكل من علم ذلك بيقين وتحقق، وأما ضرب عمر أبا هريرة (2) وسلبه منه ما كان أتى به مما أهدى إليه فإنما كان لدفع المظنة أو لنوع شبهة نشأت لعمر أو لينسد باب الحيلة فإنه لو ترك أبا هريرة يأخذه لجعل كل واحد من القضاة يقدم عليه محتجًا بفعله، ومفسدته لا تخفى.

وفیہ حاشيتہ:

"(2) فقد حكى ابن الهمام استعمل عمر أبا هريرة فقدم بمال فقال له من أين لك هذا قال تلاحقت الهدايا فقال له عمر هلا قعدت في بيتك فتنظر هل يهدي لك أم لا فأخذ ذلك منه وجعله في بيت المال، وذكر الحافظ في الإصابة برواية عبد الرزاق أن عمر استعمل أبا هريرة على البحرين فقدم بعشرة آلاف فقال له عمر استأثرت بهذه الأموال فمن أين لك قال خيل نتجت وأعطية تتابعت وخراج رقيق لي فنظر فوجدها كما قال ثم دعاه فأبى فقال لقد طلب العمل من كان خيرًا منك، قال إنه يوسف نبي الله ابن نبي الله وأنا أبو هريرة بن أميمة وأخشى ثلثًا أن أقول بغير علم أو أقضي بغير حكم ويضرب ظهري ويشتم عرضي وينزع مالي."

(أبواب الأحكام  عن رسول الله صلى الله عليہ وسلم،ج2،ص346،ط؛مطبعۃ ندوۃ العلماء)

صحیح البخاری میں ہے:

"عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه قال: «ما زلنا أعزة منذ أسلم عمر.»"

"حدثنا يحيى بن سليمان قال: حدثني ابن وهب قال: حدثني عمر بن محمد قال: فأخبرني جدي زيد بن عبد الله بن عمر، عن أبيه قال: «بينما هو في الدار خائفا، إذ جاءه العاص بن وائل السهمي أبو عمرو، عليه حلة حبرة وقميص مكفوف بحرير، وهو من بني سهم، وهم حلفاؤنا في الجاهلية، فقال له: ما بالك؟ قال: زعم قومك أنهم سيقتلوني إن أسلمت، قال: لا سبيل إليك، بعد أن قالها أمنت، فخرج العاص فلقي الناس قد سال بهم الوادي، فقال: أين تريدون؟ فقالوا: نريد هذا ابن الخطاب الذي صبا، قال: لا سبيل إليه، فكر الناس.»"

(کتاب مناقب الانصار،‌‌باب: إسلام عمر بن الخطاب رضي الله عنه،ج5،ص48،ط؛دار طوق النجاۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505101968

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں