کیا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بی بی فاطمہ کے دروازے کو آگ لگائی تھی ؟
اس قسم کا کوئی واقعہ کسی مستند تاریخی کتاب میں نہیں ملتا، البتہ کتبِ شیعہ کی بعض ان کتابوں میں یہ من گھڑت واقعہ مذکور ہے جو اہلِ تشیع کے یہاں بھی غیر معتبر کتب ہیں۔
مذکورہ واقعہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر کو جلانے کی تہمت لگانا صریح جھوٹ و بہتان ہے، حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ اپنی کتاب تحفہ اثنا عشریہ میں اس قصہ کی بابت ارشاد فرماتے ہیں:
"یہ قصہ سراسر بہتان اور بدترین افتراء اور جھوٹ ہے، اس کی کوئی اصلیت نہیں، اس لیے امامیہ حضرات کی اکثریت اس قصہ کی قائل ہی نہیں ہے"۔
(تحفہ اثنا عشریہ مترجم،باب10: خلفاء ثلاثہ اور کبارِ صحابہ پر مطاعن اور ان کے جواب، ص:568، ط: عالمی مجلس تحفظ اسلام)
البتہ جو روایات اس بارے میں نقل کی جاتی ہیں، ان کو ایسے مصنفین نے ذکر کیا ہے جنہوں نے اپنی کتابوں میں رطب و یابس کو جمع کر دیا ہے، یعنی صحیح اور مضبوط روایات کو ذکر کرنے کا التزام نہیں کیا ہے، خود وہ روایات محدثین کے بیان کردہ صحت کے معیارات پر پورا نہیں اترتیں، یعنی ان کی اسانید کے راوی مطعون ہیں، نیز اکثر روایات میں سند کے آخری راوی اور اس واقعہ کے درمیان انقطاعِ زمانی پایا جاتا ہے، یعنی خود یہ شخص اس واقعہ کے وقت موجود نہ تھا اور جس سے سناوہ کون ہے اور کس درجہ کا ہے،یہ معلوم نہیں ہے۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144402100104
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن