کیا درج ذیل واقعہ"فتوح البلدان" نامی کتاب میں موجود ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
’’حضرت ضمرہ فرماتے ہیں کہ دمشق کے عیسائیوں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دربار میں ایک گرجا گھر پر مسلمانوں کے زبردستی قبضے کی شکایت کی، جسے کسی اموی خلیفہ نے دمشق میں قبضہ میں لے لیا تھا تو حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے مسلمانوں کو اس گرجا گھر سے نکلنے کا حکم دیا اور اسے واپس عیسائیوں کے حوالے کردیا‘‘۔
سوال میں آپ نے حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کےعیسائیوں کو گرجاگھر واپس کرنے سے متعلق جس واقعہ کےبارے میں دریافت کیا ہے، یہ واقعہ علامہ بلاذری رحمہ اللہ "فتوح البلدان"میں اپنی سند سے درج ذیل الفاظ میں ذکر کیا ہے :
"حدّثني أبو عُبيد قال: حدّثنا نُعيم بن حمّاد عن ضَمرة بن ربيعة عن رَجاء ابن أبي سلمة قال: خاصم حسّانُ بن مالك عجمُ أهل دمشق إلى عمر بن عبد العزيز في كنيسةٍ كان رجلٌ مِن الأمراء أقطعَه إيّاها، فقال عمرُ: إنْ كانتْ مِن الخمس عشرةَ كنيسةً التي في عهدِهم فلا سبيلَ لك عليها.
قال ضَمرة عن علي بن أبي حملة: خاصمَنا عجمُ أهل دمشق إلى عمر بن عبد العزيز في كنيسةٍ كان فلان قطعَها لبني نصْرِ بدمشق، فأخرجَنا عمرُ عنها وردَّها إلى النصارى، فلما ولِي يزيدُ بن عبد الملك ردّها إلى بَني نصْرٍ".
(فتوح البلدان، فتح مدينة دمشق وأرضها، ص:126، ط: مكتبة الهلال- بيروت)
ترجمہ:
’’دمشق کے عجمیوں (عیسائیوں) میں سے حسان بن مالک نے حضرت عمر بن عبد العزیزرحمہ اللہ کے دربار میں اس گرجاگھر کے بارے میں مخاصمت کی،جو امراء میں سے کسی امیر نے قبضہ میں لے لیاتھا،حضرت عمر (بن عبد العزیز) رحمہ اللہ نے فرمایا:اگر یہ گرجاگھر ان پندر ہ (۱۵)گرجاگھروں میں سے ہے جو(دمشق پر) ان کے زمانہ (اقتدار ) میں موجود تھےتو تیرے لیےاس میں کوئی راہ نہیں ہے(یعنی مسلمانوں کو اسے لینے میں کا کوئی حق نہیں ہے)۔
ضمرہ ،علي بن ابی حملہ سے روایت کرتے ہیں: دمشق کے عجمیوں نے حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کٍے دربار میں ہم سے اس گرجاگھر کے بارے میں مخاصمت کی ،جو فلاں(امیر) نے دمشق میں بنو نصر کے لیے قبضہ میں لے لیاتھا،حضرت عمر (بن عبد العزیز)رحمہ اللہ نےہمیں اس گرجاگھر سے نکلنے کاحکم دیااور اسےواپس عیسائیوں کےحوالے کردیا۔۔۔‘‘۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144502100084
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن