بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بیت المقدس کے عیسائیوں کے ساتھ معاہدہ


سوال

حضرت عمر رضى الله تعالیٰ عنہ نے یروشلم کے لیے عیسائیوں کے ساتھ کیسا اور کیا معاہدہ کیا تھا ؟اور کیا اس معاہدے کی پاسداری آج بھی مسلمانوں پر ضروری ہے ؟

جواب

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ذمی رعایا کو جو حقوق دیے تھے ،اس کا مقابلہ اگر اس زمانہ کی او ر سلطنتوں سے کیا جائے ،تو کسی طرح کا تناسب نہ ہوگا،مملکت اسلامیہ کے ہمسایہ میں جو سلطنتیں تھیں ،وہ روم اور فارس کی تھیں ،ان دونوں سلطنتوں میں غیر قوموں کے حقوق غلاموں سے بھی بد تر تھے ،شام کے عیسائی باوجود یہ کہ  رومیوں کے ہم مذہب تھے ،تاہم ان کو اپنی مقبوضہ زمینو ں میں کسی قسم کا مالکانہ حق حاصل نہیں تھا،بلکہ وہ خود ایک قسم کی جائیداد  خیا ل کیے جاتے تھے،اور مالک سابق کو ان پر جو مالکانہ اختیارات حاصل ہوتے ،وہی قابض حال کو حاصل ہوجاتے تھے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب ان ممالک کو زیر نگیں کیا تو دفعتہً وہ پر انی حالت تبدیل ہوگئی،جو حقوق ان کو دیے گئے ،اس کے لحاظ سے گویا وہ رعایا نہیں رہے بلکہ اس قسم کا تعلق ہوگیا جیسا کہ دو برابر کے معاہدہ کرنے والوں کا ہوتا ہے ۔فتح بیت المقدس  کے موقع پر وہاں کے باسیوں کی شرط پر خود چل کر آنا ،اور انتہائی  انصاف پر مبنی معاہدہ کرنا  اس کی کھلی دلیل ہے ۔

ذیل میں بیت المقدس (یروشلم ) کا معاہد ہ نقل کیا جاتا ہے :

تاریخ جریر طبری میں ہے :

"وعن خالد وعبادة، قالا: صالح عمر أهل إيلياء بالجابية، وكتب لهم فيها الصلح لكل كورة كتابا واحدا، ما خلا أهل إيلياء.

بسم الله الرحمن الرحيم هذا ما أعطى عبد الله عمر أمير المؤمنين أهل إيلياء من الأمان، أعطاهم أمانا لأنفسهم وأموالهم، ولكنائسهم وصلبانهم، وسقيمها وبريئها وسائر ملتها، أنه لا تسكن كنائسهم ولا تهدم، ولا ينتقص منها ولا من حيزها، ولا من صليبهم، ولا من شيء من أموالهم، ولا يكرهون على دينهم، ولا يضار أحد منهم، ولا يسكن بإيلياء معهم أحد من اليهود، وعلى أهل إيلياء أن يعطوا الجزية كما يعطي أهل المدائن، وعليهم أن يخرجوا منها الروم واللصوت، فمن خرج منهم فإنه آمن على نفسه وماله حتى يبلغوا مأمنهم، ومن أقام منهم فهو آمن، وعليه مثل ما على أهل إيلياء من الجزية، ومن أحب من أهل إيلياء أن يسير بنفسه وماله مع الروم ويخلي بيعهم وصلبهم فإنهم آمنون على أنفسهم وعلى بيعهم وصلبهم، حتى يبلغوا مأمنهم، ومن كان بها من أهل الأرض قبل مقتل فلان، فمن شاء منهم قعدوا عليه مثل ما على أهل إيلياء من الجزية، ومن شاء سار مع الروم، ومن شاء رجع إلى أهله فإنه لا يؤخذ منهم شيء حتى يحصد حصادهم، وعلى ما في هذا الكتاب عهد الله وذمة رسوله وذمة الخلفاء وذمة المؤمنين إذا أعطوا الذي عليهم من الجزية شهد على ذلك خالد بن الوليد، وعمرو بن العاص، وعبد الرحمن بن عوف، ومعاوية بن أبي سفيان وكتب وحضر سنة خمس عشرة."

(سنة خمس عشرہ،‌‌ذكر فتح بيت المقدس،ج:3،ص:609،ط:دار المعارف بمصر)

ترجمہ:ـ’’ یہ وہ امان ہے جو خدا کے غلام امیر المؤمنین عمر نے ایلیا کے لوگوں کو دی ،یہ امان ان کی جان ،مال ،گرجا ،صلیب ،تندرست ،بیمار ،اور ان کے تمام مذہب والوں کے لیے ہے  اس طرح پر کہ ان کے گرجاؤں میں نہ سکونت کی جائے گی،نہ وہ ڈھائے جائیں گےنہ ان کو اورنہ ان کے احاطہ کو کچھ نقصان پہنچایا جائے گا،نہ ان کی صلیبوں اور ان کے مال میں کچھ کمی کی جائے گی،مذہب کے بارے میں ان پر جبر نہ کیا جائے گا،نہ ان میں سے کسی کو نقصان پہنچایا جائے گا،ایلیاء میں ان کے ساتھ یہودی نہ رہنے پائیں گے ،ایلیاء والوں پر یہ فرض ہے کہ اور شہروں کی طرح جزیہ دیں اور یونانیوں اور چوروں کا نکال دیں ،ان  یونانیوں میں سے جو شہر سے نکلے گا،اس کی جان اور مال کو امن ہے تاکہ وہ جائے پناہ میں پہنچ  جائے،اور جو ایلیاء ہی میں رہنا اختیار کرلے تو اس کو بھی امن ہے اور اس کو جزیہ دینا ہوگا،،اور ایلیاء والوں میں سے جو شخص اپنی جان اور مال لے کر یونانیوں کے ساتھ چلا جانا  چاہے تو ان کو اور ان کے گرجاؤں کو اور صلیبوں کوامن ہے ،یہاں تک کہ وہ اپنی جائے پناہ تک پہنچ جائیں ،اور جو کچھ اس تحریر میں ہے ،اس پر خداکا  اس کے رسول ،خدا کے خلیفہ کا اور مسلمانوں کا ذمہ ہے ،بشرط یہ کہ یہ لوگ جزیہ مقررہ ادا کرتے رہیں ،اس تحریر پر گواہ ہیں خالد بن ولید،عمرو بن العاص ،عبد الرحمن بن عوف اور معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالی ٰ عنہم ،اور یہ ۱۵ ہجری میں لکھا گیا۔‘‘ 

جہاں تک آج مسلمانوں پر اس معاہد ہ کی پاسداری کا حکم ہے کہ تو چوں کہ صلیبی جنگوں کےدوران یروشلم مسلمانوں کے قبضہ سے نکل گیا تھا ،اس لیے اس کے ساتھ وہ معاہد ہ بھی ختم ہوگیا تھا، لہذا اس کے بعد مسلمانوں پر اس معاہد ہ بھی ضروری نہیں رہی ۔اس كے بعد 1948سے تاحال یروشلم پر اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ ہے ،اور مسلمانوں کا قبلہ اول بھی  ان کے زیر تسلط ہے، اس کی آزادی کے لیے مسلمان حکمرانوں سمیت تمام عالم اسلام کو متحد ہوکر بھر پور اقدامات اٹھانے چاہیے ،اور اس کی آزادی کے لیے دعا بھی کرنی چاہیے ۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412101159

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں