بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت عمر کی شہادت کون سی شہادت ہے؟


سوال

حضرت عمر رضی اللہ عنہ  شہید کیے گئے جب کہ  فقہاء کی کتابوں میں شہید  کو دو قسموں میں ذکر کیاگیا ہے ایک شہید دنیوی و اخروی اور دوسرا شہید اخروی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس میں کون سی قسم میں داخل ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ وہ مسلمان شخص جو کفار کےساتھ مقابلے میں  یا کسی شخص کے ہاتھوں ظلماً  مارا جائےاور موقع پر ہی شہید ہوجائے ، یا موقع پر شہید تو نہ ہو لیکن اس قدرزخمی کیا گیا ہو کہ اسے کوئی دنیاوی منفعت (علاج، غذا وغیرہ) حاصل کرنے کا موقع نہ  ملےاور اس حالت میں انتقال کرجائے تو یہ شہید حقیقی اور شہید  دنیوی کہلا تا ہے یعنی اس پر دنیا میں بھی شہید کے تمام احکامات جاری ہوں گے اور جو شخص میدان جہاد میں یا عام حالات میں ظلماً زخمی ہوا لیکن اسے زخمی ہونے کے بعد دنیاوی منفعت کے حصول کا موقع ملا ہو یا اس پر ایک نماز کا وقت گزرا ہو اور اس کو ہوش و حواس بھی ہو یا کسی دنیوی امور کی وصیت کی ہو ،ایساشخص اگر انہی زخموں کی وجہ سے انتقال کر جائے تو وہ بھی شہید کہلاتا ہے لیکن اسے شہید اخروی کہا جاتا ہے، یعنی  اس پر دنیا میں شہید کے احکام (یعنی غسل نہ دینا اورپہنے ہوئے کپڑوں میں دفن کرنا وغیرہ )جاری نہیں ہو تے۔البتہ  آخرت میں اس کا اجروثواب شہیدوں والا ہوتا ہے۔

مذکورہ تفصیل کی رو سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت شہادت اخروی ہے، کیوں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا انتقال زخمی ہونے کے چوتھے یا پانچوں دن ہوا اور آپ کو بطور علاج نبیذ اور دودھ بھی پلایا گیا، غسل بھی دیا گیا ، البتہ شہادت کے یہ احکام دنیا کے اعتبار سے ہیں، اس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فضائل اور مناقب میں کوئی تنقیص لازم نہیں آتی ،نہ ہی یہ بات آپ کو شہید کہنے  سے مانع ہے  ۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو  دربار  نبوت سے  شہادت کی خبر اور خوشخبری بھی دی گئی جیسا کہ  حدیث شریف میں ہے کہ :حضور صلی اللہ علیہ وسلم احد پہاڑ پر چڑھے اور آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر، عمر  اور عثمان رضوان اللہ علیھم اجمعین تھے وہ پہاڑ لرزنے لگا آپ نے فرمایا " ٹھہر جا ! تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔ 

صحیح بخاری میں ہے:

عن قتادة، أن أنس بن مالك رضي الله عنه، حدثهم أن النبي صلى الله عليه وسلم ‌صعد ‌أحدا، وأبو بكر، وعمر، وعثمان فرجف بهم، فقال: «اثبت أحد فإنما عليك نبي، وصديق، وشهيدان»

(کتاب المناقب، ص/519، ج/1، ط/قدیمی)

فتح القدیر میں ہے:

قال (ومن ارتث غسل) وهو من صار خلفا في حكم الشهادة

(والارتثاث: أن يأكل أو يشرب أو ينام أو يداوى أو ينقل من المعركة حيا) لأنه نال بعض مرافق الحياة  (ولو بقي حيا حتى مضى وقت صلاة وهو يعقل فهو مرتث) لأن تلك الصلاة صارت دينا في ذمته وهو من أحكام الأحياء

           (باب الشہید، ص/149، ج/2، ط/رشیدیه)

الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب میں ہے:

قال أبو عمر: قتل عمر رضي الله عنه سنة ثلاث وعشرين من ذي الحجة، طعنه أبو لؤلؤة فيروز غلام المغيرة بن شعبة لثلاث بقين من ذي الحجة- هكذا قال الواقدي. وغيره قال: لأربع بقين من ذي الحجة سنة ثلاث وعشرين.

وروى سعيد، عن قتادة، عن سالم بن أبي الجعد، عن معدان بن أبي طلحة اليعمري، قال: قتل عمر يوم الأربعاء لأربع بقين من ذي الحجة، وكانت خلافته عشر سنين وستة أشهر

(باب عمر، ص/1152، ج/3، ط/دار الجیل )

وفیہ ایضاً:

وقال: ادعوا لي الطبيب، فدعي الطبيب، فقال:

أي الشراب أحب إليك؟ قال: النبيذ، فسقي نبيذا، فخرج من بعض طعناته، فقال الناس: هذا دم صديد. قال: اسقوني لبنا، فخرج من الطعنة، فقال له الطبيب: لا أرى أن تمسي، فما كنت فاعلا فافعل

(باب عمر، ص/1154، ج/3، ط/دار الجیل )

مناقب عمر بن الخطاب لابن الجوزی میں ہے:

عن عبدالله بن عمر ان رضوان الله عليه غسل وكفن وصلي عليه فكان شهيداّ

 (الباب التاسع والستون في ذكر غسله ص/232، ط/دار الکتب العلمیة)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144304100525

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں