بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو القعدة 1446ھ 05 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے سورۃ البقرہ بارہ سال میں یاد کیا تھا


سوال

کیا یہ بات درست ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے سورۃ البقرہ کی تفسیر سیکھنے میں بارہ سال لگاۓ تھے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  مذکورہ بات  درست ہے کہ حضرت عمررضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے بارہ سال میں سورہ بقرہ ختم کرنے  میں لگائے تھے،اور اس کے بعد اونٹ بھی  ذبح کیا تھا، لیکن سورت ختم کرنے سے محض اس کی تلاوت سیکھنا مراد نہیں ہے، بل کہ اس کے معنی و مفہوم کو اچھی طرح سمجھنا اور اس پر عمل کرنا مراد ہے، کیوں کہ روایت میں "تعلّم" یعنی سیکھنے کے الفاظ ہیں، چناں چہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ "حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سورۃ بقرہ بارہ سال میں سیکھی تھی، جب اسے پورا کیا تو اونٹ قربان کیا"،اور یہی عمل حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے فرزند حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللّٰہ تعالیٰ عنہماکے بارے میں بھی منقول ہے، چناں چہ حضرت ماللی سے مروی ہے کہ "حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  سورۃ بقرہ پر آٹھ سال تک ٹھہرے رہے تھے، اس کو سیکھتے تھے"،نیز یہ عمل دیگر صحابہ کرام کے بارے میں بھی منقول ہے کہ وہ حضرات جب تک قرآن مجید کی سیکھی ہوئی آیات مبارکہ کو اچھی طرح سمجھنے کے بعد اس پر عمل نہ کرلیتے، تب تک مزید آیات نہ سیکھتے، چناں چہ   حضرت عبداللہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت  ہے کہ "جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید کی دس آیات سیکھتے تو جب تک جو کچھ اس میں ہے وہ نہ سیکھتے، تب تک مزید بعد والی دس آیات نہ سیکھتے، شریک سے کہا گیا کہ "جو کچھ اس میں ہے" سے مراد علم ہے؟ فرمایا : ہاں"۔

شعب الایمان میں ہے:

"حدثنا ماللى أنه بلغه أن عبد الله بن عمر ‌مكث ‌على ‌سورة ‌البقرة ثمان سنين يتعلمها."

(‌‌باب في تعظيم القرآن، فصل في تعلم القرآن، ج:3، ص:345، ط: مكتبة الرشد)

و فیہ ایضاً:

"عن عبد الله قال: كنا إذا تعلمنا من النبي صلى الله عليه وسلم عشر آيات ‌من ‌القرآن ‌لم ‌نتعلم ‌من ‌العشر التي أنزلت بعدها حتى نتعلم ما فيه. قيل لشريك: من العلم؟ قال: نعم."

(‌‌باب في تعظيم القرآن، فصل في تعلم القرآن، ج:3، ص:345، ط: مكتبة الرشد)

و فیہ ایضاً:

"عن ابن عمر قال: تعلم عمر بن الخطاب رضي الله عنه ‌البقرة ‌في ‌اثنتي ‌عشرة ‌سنة. فلما ختمها نحر جزورا."

(‌‌باب في تعظيم القرآن، فصل في تعلم القرآن، ج:3، ص:346، ط: مكتبة الرشد)

عمدۃ القاری میں ہے:

"وفي (المبسوط) وغيره: أنما قدم الأقرأ في الحديث لأنهم كانوا في ذلك الوقت يتلقونه بأحكامه، حتى روي أن ابن عمر، رضي الله تعالى عنها، حفظ سورة ‌البقرة ‌في ‌اثنتي ‌عشرة ‌سنة، فكان الأقرأ فيهم هو الأعلم بالسنة والأحكام، وعن ابن عمر أنه قال: ما كانت تنزل السورة على رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا ونعلم أمرها ونهيها وزجرها وحلالها وحرامها، والرجل اليوم يقرأ السورة ولا يعرف من أحكامها شيئا."

(‌‌كتاب مواقيت الصلاة، باب أهل العلم والفضل أحق بالإمامة، ج:5، ص:203، ط: دار إحياء التراث العربي)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101229

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں