حدیثِ پاک میں آتا ہے کہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے جنازے میں ستر ہزار فرشتوں نے شرکت کی، نبی کرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی قبر پر ٹھہرے، آپ فرمایا: اگر قبر کے جھٹکے سے کوئی بچ سکتا تو سعد بچ جاتا، تو الحمد للہ میرے قبر پر کھڑے ہونے کی برکت سے اللہ نے اس کی شدت کو کم کردیا۔
پوچھنا یہ ہے کہ اس حدیث کے بعد کسی حدیث یا کسی جگہ پر کیا یہ بات ملتی ہے کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے ساتھ قبر میں یہ سلوک کیوں ہوا تھا؟ کیا وہ ترش رو تھے؟بیوی کے ساتھ نرمی سے بات نہیں کرتے تھے اور سختی سے بولتے تھے؟ اس طرح کے کوئی الفاظ احادیث وغیرہ میں ملتے ہیں؟
احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ : "ضمة القبر" یا "ضغطة القبر"(یعنی دبوچنا) یہ عام ہے، ہر مسلمان کو قبر میں داخل ہونے کے بعد ہوگا، اس سے کوئی مسلمان نہیں بچ سکتا، حتی کہ اس امت کے عظیم رہبران صحابہ کرام بھی اس سے نہیں بچ سکے، سوائے انبیا ء کرام علیہم السلام اور شہداء کے کہ ان کو ضغطہ نہیں ہوگا، اسی تسلسل کی ایک مثال حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا واقعہ بھی ہے کہ ان کو قبر میں داخل ہونے کے بعدضغطہ ہوگیا تھا، جس کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے آکر ان کےقبر پر تسبیح وتکبیر کرنے کے بعد وہ ضغطہ (دبوچنا)ختم ہوگیا، اسی طرح روایات میں مختلف افراد سے متعلق ضغطۂ قبر کا واقعہ ذکر ہے، چناں چہ روایت میں ایک بچے سے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی قبر کے دبوچنے(ضغطہ) سے بچ جاتا تو یہ بچہ بچ سکتا۔ ایک اور روایت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا سے متعلق بھی ضغطۂ قبر کا ذکر ہے کہ ان کو بھی ضغطۂ قبر ہوگیا تھا۔
قبر میں ضغطہ کیوں ہوتا ہے؟ اس کے بارے میں علماء نے مختلف توجیہات لکھی ہیں:
۱- ایک توجیہ یہ ہے کہ زندگی میں ہر مسلمان سے کوئی نہ کوئی گناہ سرزد ہوتا ہے ،جس سے پاکی کے لیے قبر میں اس کو دبوچا جاتا ہے، تاکہ اس سے گناہ کا اثر ختم ہوکر سکون سے رہے، البتہ یہ دبوچنا کافر کے لیے قبرمیں قیامت تک ہوگا۔
۲- دوسری توجیہ یہ ہے کہ زمین انسان کی ماں ہے، اس سے اس کے بچے کافی عرصہ غائب گئے تھے تو ملاقات کے وقت (یعنی قبر میں) مسلمان کو محبت کی بناء پر دبوچتی ہے، اورکافر کو اللہ تعالی کے حکم سےتا قیامت تنگی اور عذاب کی بنیاد پر دبوچتی رہے گی، اور دبوچنے کی کیفیت یہ ہوگی کہ اس کی دونوں جانب کی پسلیاں ایک دوسرے سے پارکر جائیں گی۔
اب رہا یہ مسئلہ کہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو یہ ضغطہ کیوں ہوا تھا؟ اس کی راجح وجہ یہی ہے کہ یہ ضغطہ ہر مسلمان کو ہوتا ہے،لیکن سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو تخصیص کے اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ باوجود اتنی بڑی ہستی ہونے کے کہ ان کی شان میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر انصار صحابہ کرام کو حکم کیا کہ: اپنے سردار کے لیے کھڑے ہوجاؤ، اور کبھی فرمایا کہ سعد کا فیصلہ اللہ تعالی کے فیصلہ سے مطابق آیا ہے، اور اس کی نماز جنازہ میں ستر ہزار فرشتوں نے شرکت کی تھی ، اور اس کے لیے عرش نے حرکت کی (یعنی اس کی جب پاک روح آسمان پر پہنچی تو اہل عرش نے خوشی و مسرت کا اظہار کیا)، یا دیگر خصوصیات جو حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالی نے دی تھیں، وہ ان سب کے باوجود نہیں بچ سکے تو کوئی اور کیسے بچے گا؟!
بعض حضرات نے ایک منکر روایت کی روشنی میں یہ توجیہ کی ہے کہ وہ بکریاں چراتے تھے اور بکریوں کے پیشاب سے خیال نہیں کرتے تھے اور کپڑے ناپاک رہتے تھے جس کی وجہ سے ان کو قبر میں یہ تنگی لاحق ہوگئی ،یہ توجیہ درست نہیں ہے ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس سے متعلق فرماتے ہیں کہ : کم علم لوگ اس پر اعتمادنہ کریں، یہ قصہ باطل ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ پیشاب سے نہیں بچتے تھے۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے ساتھ قبر میں مذکورہ سلوک عذاب کے طور پر نہیں ہوا تھا، نہ وہ ترش رو تھے، نہ ہی وہ بیوی کے ساتھ بد سلوک تھے معاذاللہ کہ جس کی وجہ سے اس کو قبر میں عذاب دیا گیا ہو، بلکہ یہ ضغطہ ہے (دبوچنا) ہر مسلمان کو ہوگا، سوائے انبیاء کرام اور شہداء کے، یہ صرف حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو نہیں ہوا تھا، اب ذیل میں مذکورہ روایت سنن نسائی اور مسند احمد کے حوالہ سے بیان کی جاتی ہے۔
سنن نسائی میں ہے:
"أخبرنا إسحاق بن إبراهيم قال: حدثنا عمرو بن محمد العنقزي قال: حدثنا ابن إدريس ، عن عبيد الله ، عن نافع ، عن ابن عمر "عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: هذا الذي تحرك له العرش وفتحت له أبواب السماء وشهده سبعون ألفا من الملائكة لقد ضم ضمة ثم فرج عنه."
ترجمہ: ”اور حضرت ابن عمر راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ (یعنی سعد ابن معاذ ) وہ شخص ہیں جن کے لیے عرش نے حرکت کی (یعنی اس کی جب پاک روح آسمان پر پہنچی تو اہل عرش نے خوشی و مسرت کا اظہار کیا) اور ان کے لیے آسمان کے دروازے کھولے گئے، اور ان کے جنازے پر ستر ہزار فرشتے حاضر ہوئے ،اور ان کی قبر تنگ کی گئی، پھر یہ تنگی دور ہوئی اور آنحضرت ﷺ کی برکت سے ان کی قبر کشادہ ہو گئی۔“ (از مظاہرِ حق)
(سنن النسائي، كتاب الجنائز، ضمة القبر وضغطته، 4/ 100، ط: المكتبة التجارية الكبرى بالقاهرة)
مسند احمد میں ہے:
"حدثنا يعقوب، حدثنا أبي، عن ابن إسحاق، حدثني معاذ بن رفاعة الأنصاري ثم الزرقي، عن محمود بن عبد الرحمن بن عمرو بن الجموح، عن جابر بن عبد الله الأنصاري، قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما إلى سعد بن معاذ حين توفي، قال: فلما صلى عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم، ووضع في قبره وسوي عليه، سبح رسول الله صلى الله عليه وسلم فسبحنا طويلا، ثم كبر فكبرنا، فقيل: يا رسول الله، لم سبحت ثم كبرت؟ قال: "لقد تضايق على هذا العبد الصالح قبره حتى فرجه الله عنه."
(مسند أحمد، مسند عبد الله بن عمرو بن العاص، حديث أبي رمثة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم، 23/ 158، ط: مؤسسة الرسالة)
شرح الصدور میں ہے:
"وأخرج أحمد والبيهقي عن عائشة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال إن للقبر ضغطة لو كان أحد منها ناج لنجا منها سعد بن معاذ."
(شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور للسيوطي، مقدمة المؤلف، ص: 112، ط: دار المعرفة)
وفيه أيضا:
"وأخرج هناد بن السري في الزهد عن ابن أبي مليكة قال ما أجير من ضغطة القبر أحد ولا سعد بن معاذ الذي منديل من مناديله خير من الدنيا وما فيها."
(شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور للسيوطي، مقدمة المؤلف، ص: 113، ط: دار المعرفة)
وفيه أيضا:
"وأخرج سعيد بن منصور وإبن أبي الدنيا عن زاذان أن إبن عمر قال لما دفن رسول الله صلى الله عليه وسلم إبنته رقية رضي الله عنها جلس عند القبر فتربد وجهه ثم سري عنه فسأله أصحابه عن ذلك فقال ذكرت إبنتي وضعفها وعذاب القبر فدعوت الله ففرج عنها وايم الله لقد ضمت ضمة سمعها ما بين الخافقين."
(شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور للسيوطي، مقدمة المؤلف، ص: 113، ط: دار المعرفة)
معجم الاوسط میں ہے:
"حدثنا إبراهيم قال: نا إبراهيم بن الحجاج السامي قال: نا حماد بن سلمة، عن ثمامة بن عبد الله بن أنس، عن أنس، أن النبي صلى الله عليه وسلم صلى على صبي أو صبية فقال: "لو كان نجا أحد من ضمة القبر لنجا هذا الصبي."
(المعجم الأوسط للطبراني، باب الألف، باب من اسمه إبراهيم، 3/ 146، ط: دار الحرمين)
"الطبقات الكبير لابن سعد" میں ہے:
"أخبرنا شبابة بن سوار قال: أخبرني أبو معشر عن سعيد المقبري قال: لما دفن رسول الله، صلى الله عليه وسلم، سعدا قال: لو نجا أحد من ضغطة القبر لنجا سعد، ولقد ضم ضمة اختلفت منها أضلاعه من أثر البول."
(الطبقات الكبير، الصحابة، ترجمة: سعد بن معاذ، 3/ 398، ط: مكتبة الخانجي، القاهرة)
"حاشية السيوطي" میں ہے:
"قال أبو القاسم السعدي لا ينجو من ضغطة القبر صالح ولا طالح غير أن الفرق بين المسلم والكافر فيها دوام الضغط للكافر وحصول هذه الحالة للمؤمن في أول نزوله إلى قبره ثم يعود إلى الانفساح له قال والمراد بضغط القبر التقاء جانبيه على جسد الميت وقال الحكيم الترمذي سبب هذا الضغط أنه ما من أحد إلا وقد ألم بذنب ما فتدركه هذه الضغطة جزاء لها ثم تدركه الرحمة وكذلك ضغطة سعد بن معاذ في التقصير من البول."
(حاشية السيوطي على سنن النسائي، كتاب قيام الليل وتطوع النهار، 4/ 102، ط: مكتب المطبوعات الإسلامية)
"مرعاة المفاتيح" میں ہے:
"قال الحكيم: وأما الأنبياء فلا يعلم أن لهم في القبور ضمة ولا سؤالاً لعصمتهم. وقال النسفي في بحر الكلام: المؤمن المطيع لا يكون له عذاب القبر، ويكون له ضغطة القبر، فيجد هول ذلك وخوفه، لما أنه تنعم بتعمة الله ولم يشكر النعمة. وروى ابن أبي الدنيا عن محمد التيمي قال: كان يقال: إن ضمة القبر إنما أصلها أنها أمهم، ومنها خلقوا فغابوا عنها الغيبة الطويلة، فلما رد إليها أولادها ضمتهم ضمة الوالدة غاب عنها ولدها ثم قدم عليها، فمن كان لله مطيعاً ضمته برأفة ورفق، ومن كان عاصياً ضمته بعنف سخطاً منها عليه لعصيانه ربها. ذكره السيوطي في زهر الربى."
(مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، كتاب الإيمان، باب إثبات عذاب القبر، الفصل الثالث، 1/ 232، ط: إدارة البحوث العلمية والدعوة والإفتاء)
فتح الباری میں ہے:
"وما حكاه القرطبي في التذكرة وضعفه عن بعضهم أن أحدهما سعد بن معاذ فهو قول باطل لا ينبغي ذكره إلا مقرونا ببيانه ومما يدل على بطلان الحكاية المذكورة أن النبي صلى الله عليه وسلم حضر دفن سعد بن معاذ كما ثبت في الحديث الصحيح وأما قصة المقبورين ففي حديث أبي أمامة عند أحمد أنه صلى الله عليه وسلم قال لهم من دفنتم اليوم ها هنا فدل على أنه لم يحضرهما وإنما ذكرت هذا ذبا عن هذا السيد الذي سماه النبي صلى الله عليه وسلم سيدا وقال لأصحابه قوموا إلى سيدكم وقال إن حكمه قد وافق حكم الله وقال إن عرش الرحمن اهتز لموته إلى غير ذلك من مناقبه الجليلة خشية أن يغتر ناقص العلم بما ذكره القرطبي فيعتقد صحة ذلك وهو باطل."
(فتح الباري، باب ما جاء في غسل البول، 1/ 321، ط: المكتبة السلفية)
معارف السنن میں ہے:
"قال شيخنا: وما ذكره الشيخ أحمد الجونفوري في "نور الأنوار" من قصة هذا الحديث : أنه عليه السلام لما فرغ من دفن صحابی صالح ابتلى بعذاب القبر جاء إلى امرأته فسألها عن أعماله، فقالت: كان يرعى الغنم ولا يتنزه من بوله، فحينئذ قال عليه الصلاة والسلام: استنزهوا من البول فإن عامة عذاب القبر منه؛ فلم أره ولو ثبت هذا لكان فصلاً في الباب، وحجة في مورد النزع."
(معارف السنن، كتاب الطهارة، باب ما جاء في بول ما يؤكل لحمه، 1/ 276، ط: سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604101803
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن