بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کے نام کے نفل پڑھنا


سوال

 ہماری ایک رشتے دار کی عمر 80یا85 سال کی تو ہوں گی ۔ان کی نظر ابھی تک پرفیکٹ ہے وہ کہتی ہیں کہ میں کتنے سالوں سے اویس قرانی رضی اللہ عنہ کے نفل پڑھتی ہوں اس لیے میری نظر ابھی تک صیح ہے کیا یہ سنت سے ثابت ہے کہ ہم ایسا کر سکتے ہیں؟ کیا کسی  کے نوافل پڑھ سکتے ہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ بات کہیں سے ثابت نہیں کہ حضرت  اویس قرنی رضی اللہ عنہ کےنام کے  نفل پڑھنے سے نگاہ تیز ہوتی ہے ۔

نیز واضح رہے کہ عبادت بدنیہ یعنی نماز اور روزہ میں کسی اور کی طرف سے نیابت نہیں ہوسکتی ،چاہے وہ نفل نماز اور روزہ ہو یا فرض نماز اور روزہ  ،البتہ    نفل نماز یا روزہ رکھ کر اس کا ثواب دوسرے کسی  زندہ یا مرحوم شخص کو پہنچایا جاسکتا ہے ۔لہذا صورت مسؤلہ میں نفل نماز تو انسان اپنی نیت کرکے پڑھے اور اس کا ثواب کسی  کو پہنچادے تو اس کا ثواب مل سکتا ہے  ۔

فتاوی شامی میں ہے  :

"(العبادة المالية) كزكاة وكفارة (تقبل النيابة) عن المكلف (مطلقاً) عند القدرة والعجز ولو النائب ذمياً؛ لأن العبرة لنية الموكل ولو عند دفع الوكيل (والبدنية) كصلاة وصوم (لا) تقبلها (مطلقاً، والمركبة منهما) كحج الفرض (تقبل النيابة عند العجز فقط)."

(‌‌كتاب الحج، ‌‌باب الحج عن الغير، ج: 2، ص: 597، ط: سعید )

البحر الرائق میں ہے:

"والأصل فیه أن الإنسان له أن یجعل ثواب عمله لغیره صلاةً أو صوماً أو صدقةً أو قراءة قرآن أو ذكراً أو حجاً أو غیر ذلك عند أصحابنا بالکتاب والسنة."

(کتاب الحج، باب الحج عن الغیر، ج: ٣، ص: ٥٩، ط: دار الكتاب الإسلامي)

حاشية الطحطاوي علي مراقي الفلاح  میں ہے:

"فللإنسان أن یجعل ثواب عمله لغیره عند أهل السنة والجماعة سواء كان المجعول له حیًّا أو میتًا من غیرأن ینقص من أجره شيء. وأخرج الطبراني والبیهقي في الشعب عن ابن عمر قال: قال رسول الله ﷺ: إذا تصدق أحدكم بصدقة تطوعاً فلیجعلها عن أبویه؛ فیکون لهما أجرها ولاینقص من أجره شيء."

(کتاب الصلاة، باب أحکام الجنائز، فصل في زیارة القبور، ج:1، ص: 622، ط: دار الكتب العلمية)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

"سوال :- (۱) شب براء ت میں کون کون سے کام مسنون اورکون کون سے کام ممنوع ہیں ۔ (۲) کیاشب براء ت کے دن حلوہ بنانااوراس پرحضرت اویس قرنی ؒکے نام مروجہ فاتحہ دلانا جائز ہے کہ نہیں ؟اگرناجائز ہے تو کیو ں ؟ دلائل عقلیہ و نقلیہ سے مدلل فرمائیں، نیز کرنے سے اگرگناہ ہے تو کونسا گناہ ہے، مکروہ یاحرام ؟ (۳) کیاشب براء ت کی رات کومساجد میں چندآد می جمع ہوکر اطمینان وسکون کے ساتھ تلاوت ،ذکر ،مذاکرہ کرسکتے ہیں یانہیں؟ الجواب حامداًومصلیاً رات میں نفلی عبادت کرنا ،پھر دن میں روزہ ۱؂ رکھنا ، موقع مل جائے تو چپکے سے قبرستان جاکرمردوں کیلئے دعائے خیرکرنا، یہ کام توکرنے کے ہیں ، باقی آتش بازی ، نفل کی جماعت کرنا، قبرستان میں جمع ہوکر تقریب کی صورت بنانا ،حلوہ کاالتزام کرنا وغیرہ اورجو جو غیر ثابت امور رائج ہوں وہ سب تر ک کرنے کے ہیں ۔ (۲) یہ حلوہ اورا س پر اصرار والتزام اورمروجہ فاتحہ اورمخصوص طورپرحضرت اویس قرنی علیہ الرحمہ کے نام کی اس رات میں فاتحہ کاالتزام کسی دلیل سے ثابت نہیں ،۳؂اگر یہ چیزیں ثواب ہوتیں توضرور کتاب وسنت ،اجماع،قیاس مجتہدین سے ثابت ہوتیں، جب ثابت نہیں تو پھر ان کوثواب اوردین کا کام سمجھنا بدعت وقابل ردہے ’’مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَاہَذَا مَالَیْسَ مِنْه فَہُوَرَدٌّ۱ھ متفق علیه‘‘۔

( باب البدعات والرسوم، جلد :سوم ، صفحہ:253، 254، طبع:دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101976

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں