بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر بنانے کا حکم


سوال

کیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر بنانا جائز ہے ۔

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی جان دار  کی تصویر بناناحرام اور کبیرہ گناہ ہے، اور بالخصوص  حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر بنانا تو اورسخت حرام  اور گناہ درگناہ پر مشتمل ہے اور نبی کی توہین  وتنقیص  اورسخت بےادبی ہے۔

جان دار کی  تصویر کے بارے میں احادیثِ مبارکہ میں شدید وعیدیں وارد ہیں۔

مشكاة المصابيح میں ہے:

"عنعبد الله بن مسعود قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «أشد الناس عذاباً عند الله المصورون»."

(‌‌‌‌‌‌كتاب اللباس، ‌‌باب التصاوير، ج:2، ص:1274، ط:المكتب الإسلامي)

ترجمہ:" حضرت عبداللہ بن مسعودکہتے ہیں کہ میں نے رسول کریمﷺ  کویہ فرماتے ہوئے سنا کہ ”اللہ تعالیٰ کے ہاں سخت ترین عذاب کا مستوجب، مصور (تصویر بنانے والا)ہے"۔

(مظاہر حق جدید ، ج:4، ص:230، 0)  ط: دارالاشاعت)

و فیہ ایضاً:

"عن ابن عباس قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «كل مصور  في النار يجعل له بكل صورة صورها نفسا فيعذبه في جهنم."

 (‌‌‌‌‌‌كتاب اللباس، ‌‌باب التصاوير، ج:2، ص:1274، ط:المكتب الإسلامي)

ترجمہ:" حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ  میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے  ہوئے سنا کہ” ہر مصور دوزخ میں ڈالا جائے گا، اور اس کی بنائی  ہوئی ہر تصویر کے بدلے ایک شخص پیدا کیا جائے گا جو تصویر بنانے والے کو دوزخ میں عذاب دیتا رہے گا۔"

(مظاہر حق جدید، ج:4، ص:230،   ط:  دارالاشاعت)

 و فیہ ایضاً:

"وعن عائشة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «أشد الناس عذاباً يوم القيامة الذين يضاهون بخلق الله»."

 (‌‌‌‌‌‌كتاب اللباس، ‌‌باب التصاوير، ج:2، ص:1274، ط:المكتب الإسلامي)

ترجمہ:" حضرت عائشہ رسول کریمﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ  آپ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن سب لوگوں سے زیادہ سخت عذاب  ان لوگوں کو ہوگا جو تخلیق میں اللہ تعالیٰ کی مشابہت اختیار کرتے ہیں۔"

(مظاہر حق جدید، ج:4، ص:229،  ط: دارالاشاعت)

فتاوی شامی میں ہے:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ."

(كتاب الصلاة، مطلب: مكروهات الصلاة، ج:1، ص:667، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144509101380

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں