بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے ڈر کی وجہ سے فرعون کا بنی اسرائیل کے لاکھوں بچوں کا قتل کروانا


سوال

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے ڈر کی وجہ سے فرعون کا بنی اسرائیل کے لاکھوں بچوں کا قتل کروانا، اس واقعہ کی تفصیل کیاہے؟ کیا یہ واقعہ صحیح ہے؟

جواب

مذکورہ واقعہ کی تفصیل کچھ یوں ہےکہ فرعون ، مصر کا ایک ظالم اور جابر بادشاہ تھا،  جس کی حکومت ، قبطیوں اور بنی اسرائیل دونوں پر تھی۔چناچہ اس نےایک رات خواب دیکھا کہ آگ کا ایک بگولہ ،بیت المقدس کی جانب سے آیا اور اس نے مصر کو اپنے لپیٹے میں لے لیا، پس اس آگ نے اس میں رہنے والے قبطیوں کو جلا ڈالا اور بنی اسرائیل والوں کو چھوڑ دیا۔ فرعون نے اس کی تعبیر معلوم کی تو معبرین نے بتایا کہ بیت المقدس جوبنی اسرائیل کا ٹھکانہ تھا، وہاں سے ایک شخص آئے گا اور اس کے ہاتھوں مصر فتح ہوگا، فرعون نے یہ سنتے ہی حکم دیا کہ بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والے تمام بچوں کا قتل کردیا جائے، اور بچیوں کو چھوڑدیا جائے۔ چناچہ مفسرین حضرات لکھتے ہیں کہ قبطیوں نے حضرت موسی علیہ السلام کی تلاش میں بنی اسرائیل کے نوے ہزار لوگوں کا قتل کیا۔

اس قتل کی ايك اور وجہ مفسرین نے یہ بھی لکھی ہےکہ حضرت موسی علیہ السلام سے قبل جو انبیاء كرام تشریف لائے تھے، انہوں نے حضرت موسی علیہ السلام کے آنے کی بشارت دی تھی، اور فرعون کو یہ بات معلوم تھی،  لہذا اس نے بنی اسرائیل کے بچوں کے قتل کا حکم دیا ۔

امام طبری رحمہ اللہ، سورہ قصص کی تفسیر کے تحت لکھتے ہیں:

"كان من شأن فرعون أنه رأى رؤيا في منامه، أن نارا أقبلت من بيت المقدس حتى اشتملت على بيوت مصر، فأحرقت القبط، وتركت بني إسرائيل، وأحرقت بيوت مصر، فدعا السحرة والكهنة والقافة والحازة، فسألهم عن رؤياه، فقالوا له: يخرج من هذا البلد الذي جاء بنو إسرائيل منه، يعنون بيت المقدس، رجل يكون على وجهه هلاك مصر، فأمر ببني إسرائيل أن لا يولد لهم غلام إلا ذبحوه، ولا تولد لهم جارية إلا تركت."

(جامع البيان في تأويل القرآن، سورة القصص، ج: 19، ص: 516، رقم الآية: 4، ط: مؤسسة الرسالة)

صاحب تفسير مفاتيح الغيب فرماتے ہیں:

"إن الأنبياء الذين كانوا قبل موسى عليه السلام بشروا بمجيئه، وفرعون كان قد سمع ذلك، فلهذا كان يذبح أبناء بني إسرائيل، وهذا الوجه هو الأولى بالقبول... قال وهب: قتل القبط في طلب موسى عليه السلام تسعين ألفا من بني إسرائيل."

(مفاتيح الغيب/ التفسير الكبير، سورة القصص، ج: 24، ص: 578، رقم الآية: 4، ط: دار إحياء التراث العربي بيروت)

ابن سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب فرعون نے ارادہ کیا کہ بنی اسرائیل کی نسل کشی کی جائے، تو اس نے بچوں کے قتل عام کا حکم دیا، پس وہ ایک سال بچوں کا قتل کرتا تھا اور ایک سال انہیں زندہ رکھتا تھا۔

"وقال السدي: أخذ بني إسرائيل يذبح الأطفال سنين، فرأى أنه يقطع نسلهم، فعاد يذبح عاما ويستحيي عاما"

(المحرر الوجيز في تفسير الكتاب العزيز، سورة القصص، ج: 4، ص: 276، رقم الآية: 4، ط: دار الكتب العلمية بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504100273

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں