بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت موسی علیہ السلام اور قبطی کا واقعہ


سوال

موسی علیہ السلام کا قبطی کو مکہ مارنے والا واقعہ بتا دیں،  اور کیا ان پر کوئی مواخذہ ہوا تھا؟

جواب

حضرت  موسی علیہ السلام کی والدہ کا گھر شہر سے باہر تھا ، آپ  کبھی والدہ کے پاس  ہوتے اور کبھی شہر آجاتے ،ایک مرتبہ  آپ ظہر کے وقت یا مغرب  اور عشاء کے درمیان    مصر شہر میں داخل ہوئے،  یہ وقت  عموما ً کچھ غفلت  کا وقت ہوتا ہے ،لوگ قیلولہ کررہے ہوتے ہیں  یا کھانا کھا رہے ہوتے ہیں ،آپ نے دیکھا کہ دو آدمی آپس میں لڑرہے ہیں ،جن میں سے ایک قبطی تھا جو فرعون کی قوم میں سے تھا اور دوسرا اسرائیلی تھا جو حضرت موسی  علیہ السلام کی قوم میں سے تھا ،اسرائیلی  نے موسی علیہ السلام کو دیکھا  تو قبطی کے ظلم  و زیادتی کی شکایت کی اور ان سے  قبطی کے مقابلہ میں مدد مانگی ، یہ قبطی فرعون کے  مطبخ (باورچی خانہ ) میں روٹی پکاتا تھا ،اور یہ اس اسرائیلی شخص کو فرعون کے مطبخ کے لیے لکڑیاں  اٹھوانا چاہتا تھا ،اس معاملے میں قبطی غلطی پر تھا، حضرت موسی علیہ السلام پہلے ہی سے فرعون اور اس کی قوم کے بنی اسرائیل پر ظلم و ستم کو جانتے تھے اور اس  وقت اپنی آنکھوں سے قبطی کے ظلم کو دیکھ رہے تھے ، چنانچہ  آپ نے   پہلے تو اس قبطی کو سمجھایا ،مگر وہ نہیں مانا تو   حضرت موسی علیہ السلام نے تادیبا   ً اس قبطی کو  ایک گھونسہ مارا،  جس کو  وہ قبطی بردا شت نہ کرسکا اور  وہیں  مرگیا ۔

حضرت موسی علیہ السلام کو اندازہ نہیں تھا کہ صرف ایک گھونسے  سے ہی یہ شخص مرجائے گا ،آپ کی نیت  تو محض اس کو ظلم سے روکنے کی، اور تادیبی سزا کی  تھی ، جان سے مارنے کا ارادہ  نہیں تھا ، مگر وہ شخص آپ کے گھونسے  کی تاب نہ لاسکا اور مرگیا ،حضرت  موسی علیہ السلام اس خلافِ توقع   وقوعے پر نادم ہوئے اور فرمایا :  {هذا من عمل الشیطان انه عدو مضل مبین}،یعنی یہ کام شیطان کی طرف سے  ہوا ہے ،وہ کھلا دشمن گم راہ کرنے والا ہے ،پھر اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کیا : {رب انی ظلمت نفسی فاغفر لي فغفرله انه هو  الغفور الرحیم} ،یعنی اے میرے پروردگا ر میں نے اپنے  نفس پر ظلم کیا ،مجھے معاف  فرمادیجیے ،اللہ پاک نے معاف فرما دیا؛ کیوں کہ وہ ہی معاف کرنے والا اور بہت رحم کرنے والا ہے ۔

اگلے روز حضرت موسیٰ علیہ السلام خوف کی حالت میں شہر میں نکلے تو دیکھا گزشتہ کل والا اسرائیلی شخص آج کسی اور قبطی سے لڑ رہا ہے، یہ اسرائیلی شخص پہلے دن تو بے قصور تھا، دوسرے دن بھی گو اس کا جرم واضح نہیں تھا، لیکن مسلسل دو دن جھگڑنے کی وجہ سے  ظاہر یہی تھا کہ اس شخص کے مزاج میں بھی کچھ فساد ہے، لہٰذا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اوّلًا اسے (اسرائیلی کو)   تنبیہ فرمائی کہ تم ہی شرارتی معلوم ہوتے ہو، پھر آگے بڑھ کر ان کے جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے قبطی کو پکڑ کر علیحدہ کرنا چاہا کہ اسرائیلی ڈر گیا، اور وہ سمجھا کہ آج شاید مجھے سزا ملے گی، اسی لیے مجھے ڈانٹا گیا ہے ، اس نے خوف کے عالم میں یہ جملہ کہہ دیا کہ اے موسیٰ کیا آپ مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں جیساکہ گزشتہ روز آپ نے ایک شخص کو قتل کیا؟   اس جملے کا سننا تھا کہ قبطی نے جھگڑا چھوڑ ا، اور  دوڑ کر فرعون اور اس کی کابینہ کو اطلاع دے دی کہ گزشتہ روز قتل ہونے والے قبطی کے قاتل موسیٰ ہیں ۔۔۔ الخ

بہرحال حضرت موسیٰ علیہ السلام سے گناہ کا صدور نہیں ہوا تھا، بلکہ غیر ارادی طور پر قتل ہوگیا تھا، اور اس پر آپ  علیہ السلام نے فورًا ہی استغفار کیا تو اللہ پاک نے بخشش کا پروانہ بھی دے دیا اور آپ کا مواخذہ نہیں ہوا۔

حضرت مفتی  محمد شفیع صاحب  رحمہ اللہ اس آیت کے  تحت فرماتے ہیں :

"اس آیت کا حاصل یہ ہے  کہ اس قبطی کافر کا قتل جو حضرت موسی علیہ السلام سے بلا ارادہ صادر ہوگیا تھا ،موسی علیہ السلام نے اس کو بھی اپنے منصبِ نبوت و رسالت اور پیغمبر انہ عظمتِ  شان کے لحاظ سے اپنا گنا ہ قرار دے کر اللہ تعالی سے مغفرت طلب کی ،اللہ تعالی نے معاف فرمادیا ۔یہاں پہلا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ  "قبطی کافر"  شرعی اصطلاح کے لحاظ سے ایک حربی کافر تھا،  جس کا قتل عمدًا بھی مباح اور جائز تھا؛ کیوں کہ نہ  یہ کسی اسلامی حکومت کا ذمی تھا،  نہ موسی علیہ السلام سے اس کا کوئی معاہدہ تھا ، پھر موسی علیہ السلام نے اس کو عملِ  شیطان اور گناہ کیوں قرار دیا؟  اس کا قتل تو بظاہر موجبِ اجر ہونا چاہیےتھا  کہ ایک  مسلمان پر ظلم کررہا تھا اس کو بچانے کے لیے یہ قتل واقع ہوا ۔

جواب  یہ ہے کہ معاہدہ جیسے قولی اور تحریری ہوتا ہے ،جیسے عمومًا اسلامی حکومتوں میں اہلِ  ذمہ سے معاہدہ یا کسی غیر مسلم حکومت سے صلح کا معاہدہ ، اور یہ معاہد ہ باتفاق واحب العمل اور اس کی خلاف ورزی غدر  اور عہد شکنی کے سبب حرام ہوتی ہے،  اسی طرح معاہدہ عملی بھی ایک قسم کا معاہدہ ہی ہوتا ہے،  اس کی بھی پابندی  لازمی اور خلاف ورزی  عہد شکنی کے مرادف ہے ۔

معاہدہ عملی کی صورت یہ ہے کہ جس جگہ مسلمان اور کچھ غیر مسلم کسی دوسری حکومت میں باہمی  امن و اطمینان کے ساتھ رہتے بستے ہوں ،ایک دوسرے پر حملہ کرنا یا لوٹ مارکرنا طرفین سے غداری سمجھا جاتا ہو تو اس طرح کی  معاشرت اور معاملات بھی ایک   قسم کا عملی معاہدہ ہوتے ہیں،  ان کی خلاف ورزی جائز نہیں ۔۔۔

خلاصہ یہ ہے کہ قبطی کا قتل اس عملی معاہدہ کی بنا پر اگر بالقصد ہوتا تو جائز نہیں تھا،  مگر حضرت موسی علیہ السلام نے اس کے قتل کا ارادہ نہیں کیا تھا،  بلکہ اسرائیلی شخص کو اس کے ظلم سے بچانے کے لیے  ہاتھ کی ضرب لگائی جو عادۃ ً   سببِ  قتل نہیں ہوتی ،مگر قبطی اس ضرب سے مرگیا تو موسی علیہ السلام کو یہ احساس ہوا کہ اس کو دفع کرنے کے لیے اس ضرب سے کم درجہ   بھی کافی تھا ،یہ زیادتی میرے لیے درست نہ تھی؛  اسی لیے اس کو عمل شیطان قرار دے کر اس سے مغفرت طلب فرمائی  ۔۔۔

اور  بعض مفسرین نے فرمایا کہ اگر چہ قبطی کا قتل مباح تھا،  مگر انبیاء علیہم السلام مباحات میں  بھی اہم معاملات میں اس وقت تک اقدام نہیں کرتے جب تک خصوصی طور پر اللہ تعالی کی  طرف سے اجازت و اشارہ نہ ملے ، اس  موقع پر حضرت موسی  علیہ السلام  نے خصوصی اجازت کا انتظار  کیے بغیر یہ اقدام فرمایا تھا ؛ اس لیے اپنی شان کے مطابق اس کو گناہ قرار دے کر استغفار کیا ۔"

(معارف القرآن  ج: ۶ ص:۶۲۳ ،۶۲۴ )

وفي تفسير ابن كثير:

 {ودخل المدينة على حين غفلة من أهلها}قال ابن جريج، عن عطاء الخراساني، عن ابن عباس: وذلك بين المغرب والعشاء.

وقال ابن المنكدر، عن عطاء بن يسار، عن ابن عباس: كان ذلك نصف النهار. وكذلك قال سعيد بن جبير، وعكرمة، والسدي، وقتادة.

{فوجد فيها رجلين يقتتلان} أي: يتضاربان ويتنازعان، {هذا من شيعته} أي: من بني إسرائيل، {وهذا من عدوه} أي: قبطي، قاله ابن عباس، وقتادة، والسدي، ومحمد بن إسحاق. فاستغاث الإسرائيلي بموسى، عليه السلام، ووجد موسى فرصة، وهي غفلة الناس، فعمد إلى القبطي." (6/ 225)

وفي التفسير المظهري :

"و قال المحلى: مدينة منف دخله بعد ان غاب عنه مدة عَلى حِينِ غَفْلَةٍ مِنْ أَهْلِها وهو وقت القائلة واشتغال الناس بالقيلولة وقال محمد بن كعب القرظي دخلها فيما بين المغرب والعشاء ... وفى بعض التفاسير عقد موسى ثلاثا وثمانين فضربه فى صدره فَقَضى عَلَيْهِ اى قتله ودفنه فى الرمل كذا قال المحلى ومعناه فرغ من امره فكل شىء فرغت منه فقد قضيته وقضيت عليه ولم يكن الموسى قتله فندم عليه موسى وقالَ إلخ الجملة مستأنفة هذا اى القتل مِنْ عَمَلِ الشَّيْطانِ انما قال ذلك لانه لم يكن مأمورا حينئذ بقتل الكفار او لانه كان مأمونا فيهم فلم يكن له اغتيالهم وهذا لم يكن مناف لعصمته لكونه خطأ وانما عدّ ذلك الأمر من عمل الشيطان وسماه ظلما واستغفر عنه على عادة المقربين فى استعظام محقرات صدرت منهم."(7/ 151)

وفي روح البيان:

"مِنْ عَدُوِّهِ العدو يطلق على الواحد والجمع اى من مخالفيه دينا وهم القبط واسمه فاتون كما فى كشف الاسرار وكان خباز فرعون أراد ان يسخر الاسرائيلى ليحمل حطبا الى مطبخ فرعون فَاسْتَغاثَهُ الَّذِي مِنْ شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّهِ اى سأله ان يغيثه بالاعانة عليه ... فاضيف العمل الى الشيطان لانه كان باغوائه ووسوسته وانما كان من عمله لانه لم يؤمر بقتل الكفار او لانه كان مأمونا فيهم فلم يكن له اغتيالهم و لايقدح ذلك فى عصمته لكونه خطأ وانما عده من عمل الشيطان وسماه ظلما واستغفر منه جريا على سنن المقربين فى استعظام ما فرط منهم ولو كان من محقرات الصغائر." (6/ 390)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144203200379

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں