کیا غیر نبی کے ساتھ علیہ السلام لگانا جائز ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو پھر حضرت مریم اور حضرت آسیہ کے ساتھ علیہا السلام لگانا کیسا ہے؟
’’علیہ السلام‘‘ کا معنی ہے "اس پر سلامتی ہو"، لغوی معنی کے اعتبار سے یہ کسی کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، جب کہ اصطلاحی معنی میں اس کا استعمال انبیاءِ کرام علیہم السلام کے ساتھ خاص ہے، البتہ ضمناً وتبعاً ان کے متعلقین کےلیے بولنا بھی جائز ہے، اور صحابی کے لیے "رضی اللہ عنہ" اور صحابیہ کے لیے "رضی اللہ عنہا" کی اصطلاح اہلِ سنت کے ہاں مستعمل ہے، اور حضرت مریم اور حضرت آسیہ دونوں صحابیہ ہیں؛ لہذا جب صرف ’’حضرت مریم‘‘ اور ’’حضرت آسیہ‘‘ کا نام لیا جائے یا لکھا جائے تو ان کے نام کے ساتھ ’’رضی اللہ عنہا‘‘ کہا یا لکھا جائے۔
ہاں اگر کسی نبی پر درود و سلام بھیجتے ہوئے ضمناً ان پر بھی سلامتی بھیج دی جائے اس کی اجازت ہوگی، چناں چہ ان کے نام کے ساتھ ’’علیٰ نبینا و علیہاالسلام‘‘ کا لفظ بولا جاسکتا ہے۔
مزید تفصیل کےلیے درج ذیل لنک پر موجود جامعہ سے جاری شدہ تفصیلی فتوی ملاحظہ کریں۔
انبیاء کرام کے علاوہ کے لیے علیہ السلام کا استعمال
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144110201722
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن