بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت معاذ جہنی، حضرت بلال اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم کے متعلق


سوال

حضرت معاذ بن جہنی، حضرت بلال اور حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہم کی قبریں کہاں ہیں؟ کس سلسلے میں وہاں گئے تھے؟ خلیفہ کی طرف سے آخری وقت میں کس کام پر مامور تھے؟

جواب

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد  بلا ضرورت لوگوں سے میل جول ختم کرتے ہوئے مسلمانوں کے آپس کے  اختلاف سے  اپنے آپ کو دور  رکھا،  ان کے بیٹے اور بھتیجے نے چاہا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد وہ لوگوں کو اپنی طرف بلائیں،  لیکن انہوں نے ایسا اقدام نہیں کیا۔ آپ کی وفات  ۵۴،  ۵۵  یا  ۵۸  ہجری میں عقیق نامی جگہ پر ہوئی جو مدینہ منورہ سے سات میل کے فاصلے ہر ہے۔  پھر انہیں مدینہ منورہ لاکر مسجدِ نبوی میں جنازہ ادا کیا گیا۔ جنازہ  حاکمِ وقت  مروان  نے پڑھایا۔

جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیت المقدس فتح کیا تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے ان سے درخواست کی کہ انہیں وہیں رہائش کی اجازت مل جائے جس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں اجازت دے دی۔حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کا انتقال  ۱۷،  ۱۸  یا ۲۰ ہجری  میں  شام کے علاقے دمشق یا حلب میں ہوا اور وہیں ان کی قبر بنی۔ 

حضرت معاذ بن جہنی رضی اللہ عنہ جو کہ صحابیٔ رسول ہیں، ان  کا سنِ وفات معتبر کتب میں نہیں مل سکا،  تاہم ان کا  اس وقت مسلمانوں کے امیر  عبد الملک بن مروان  کی طرف سے معرکہ میں شرکت کرنا کتب میں منقول ہے۔ ان کی وفات عسفان میں ہوئی اور قبر بھی وہیں ہے۔

أسد الغابة  میں ہے :

"ولما قتل عثمان اعتزل الفتنة، ولم يكن مع أحد من الطوائف المتحاربة، بل لزم بيته، وأراده ابنه عمر، وابن أخيه هاشم بن عتبة بن أبي وقاص أن يدعو إلى نفسه، بعد قتل عثمان، فلم يفعل، وطلب السلامة، فلما اعتزل طمع فيه معاوية، وفي عبد الله بن عمر، وفي محمد بن مسلمة، فكتب إليهم يدعوهم إلى أن يعينوه على الطلب بدم عثمان، ويقول: إنكم لا تكفرون ما أتيتموه من خذلانه إلا بذلك، فأجابه كل واحد منهم يرد عليه ما جاء به  ...وتوفي سعد بن أبي وقاص سنة خمس وخمسين، قاله الواقدي، وقال أبو نعيم الفضل بن دكين: مات سنة ثمان وخمسين، وقال الزبير، وعمرو بن علي، والحسن بن عثمان: توفي سعد سنة أربع وخمسين.وقال إسماعيل بن محمد بن سعد: كان سعد آدم طويلا، أفطس، وقيل: كان قصيرا دحداحا غليظا، ذا هامة، شثن الأصابع، قالته ابنته عائشة.وتوفي بالعقيق على سبعة أميال من المدينة، فحمل على أعناق الرجال إلى المدينة فأدخل المسجد فصلى عليه مروان."

(حرف السين، باب السين والعين، ج2، ص452، دار الكتب العلمية)

أسد الغابة  میں ہے :

"وروى أبو الدرداء، أن عمر بن الخطاب لما دخل من فتح بيت المقدس إلى الجابية سأله بلال أن يقره بالشام، ففعل ذلك...قال محمد بن سعد كاتب الواقدي: توفي بلال بدمشق، ودفن بباب الصغير سنة عشرين، وهو ابن بضع وستين سنة، وقيل: مات سنة سبع، أو ثماني عشرة، وقال علي بن عبد الرحمن: مات بلال بحلب، ودفن على باب الأربعين، وكان آدم شديد الأدمة، نحيفا طوالا، أجنى خفيف العارضين."

(حرف الباء، باب الباء واللام، بلال بن رباح، ج1، ص415، دار الكتب العلمية)

الثقات لابن حبان  میں ہے:

"معاذ بن أنس الجهني له صحبة حديثه عند ابنه سهل بن معاذ مات بعسفان وبها قبره."

(أسماء الصحابة، باب الميم، ج3، ص370، دائرة المعارف العثمانية)

معجم الصحابة للبغوي  میں ہے :

"معاذ بن أنس الجهني

2109 - أخبرنا عبد الله قال: حدثنا داود بن عمرو الضبي قال: حدثنا إسماعيل بن عياش قال: حدثني أسيد بن عبد الرحمن عن فروة بن مجاهد عن سهل بن معاذ الجهني قال غزوت مع أبي الصائفة في زمن عبد الملك بن مروان وعليها عبد الله بن عبد الملك فنزلنا على حصن سنان فضيق الناس المنازل وقطعوا الطريق فقام أبي في الناس فقال يا أيها الناس إني قد غزوت مع نبي الله صلى الله عليه وسلم كذا وكذا فضيق الناس المنازل وقطعوا الطريق فبعث نبي الله صلى الله عليه وسلم مناديا فنادى في الناس أن من ضيق منزلا أو قطع طريقا فلا جهاد له."

(باب الميم، معاذ بن أنس الجهني، ج5، ص282، مكتبة دار البيان)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144406100721

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں