ابرہیم علیہ السلام کی قربانی کا گوشت کس نے کھایا؟
مذکورہ دنبے کا گوشت کس نے کھایا؟یہ جاننا نہ دینی لحاظ سے ضروری ہے، نہ دنیاوی لحاظ سے مفید۔ ہمیں ایسے فضول سوالات سے بچ کر ان امور پر توجہ دینی چاہیے جن پر ہماری دنیا و آخرت کی کامیابی کا انحصار ہے۔ اپنی اصلاح کی فکر کریں اور شرعی مسائل کی صورت میں رہنمائی حاصل کریں۔
سابقہ اُمتوں پر قربانی کا گوشت اور مالِ غنیمت حرام تھے، جب کہ اُمتِ محمدیہ ﷺ کو یہ خصوصی شرف حاصل ہوا کہ ان دونوں کو حلال قرار دیا گیا۔ پچھلی امتوں میں قربانی کی قبولیت کی علامت آسمانی آگ کا نازل ہونا تھا، چنانچہ اس دنبے کا گوشت آسمانی آگ جلا دیا کرتی تھی۔ البتہ اُس مینڈھے کا سر اور سینگ — جو حضرت اسماعیلؑ کی قربانی کی یادگار تھے — قریشِ مکہ نے بطور تبرک بیت اللہ میں محفوظ کر رکھے تھے، جو بعد ازاں نذرِ آتش ہو گئے۔
السيرة الحلبيۃ میں ہے:
"وقيل إن سبب بناء عبد الله بن الزبير رضي الله تعالى عنهما للكعبة أن امرأة بخرتها فطارت شرارة فعلقت بثيابها فحصل ذلك، ولا مانع من التعدد. وقد وقع أيضا احتراقها بتبخير المرأة في زمن قريش، ولا مانع من تعدد ذلك كما تقدم.
وعد بعضهم أن من البدع تجمير المسجد وأن مالكا كرهه. وقد روي أن مولى عمر بن الخطاب رضي الله تعالى عنه كان يجمر المسجد النبوي إذا جلس عمر رضي الله عنه على المنبر يخطب، ومع حرق الكعبة حرق قرنا الكبش الذي فدي به إسماعيل فإنهما كانا معلقين بالسقف."
(المقدمة، باب: بنيان قريش الكعبة شرفها الله تعالى، ج : 1، ص : 243، ط : دار الكتب العلمية)
التفسير الوسيط للواحدی میں ہے:
"قال عطاء: كانت بنو إسرائيل يذبحون لله، فيأخذون الثروب وأطايب اللحم فيضعونها وسط البيت، والسقف مكشوف، فيقوم النبي ويناجي ربه، وبنو إسرائيل خارجون حول البيت، فتنزل نار بيضاء لها حفيف ولا دخان لها، فتأكل ذلك القربان، فقال الله تعالى إقامة للحجة عليهم: {قُلْ قَدْ جَاءَكُمْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِي بِالْبَيِّنَاتِ} [آل عمران: 183] المعجزات الظاهرات، وبالذي قلتم يعني أكل النار القربانَ، {فَلِمَ قَتَلْتُمُوهُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ} [آل عمران: 183] فيما ذكرتم؟ ! قوله تعالى: {فَإِنْ كَذَّبُوكَ فَقَدْ كُذِّبَ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِكَ} [آل عمران: 184] هذه الآية تعزية للنبي صلى الله عليه وسلم في تكذيب اليهود إياه، وبيان أنهم إن كذبوه فالتكذيب عادة للأمم وسائر الرسل، فقد كذبوا كما كذب."
(آل عمران: 183، ج : 1، ص : 529، ط : دار الكتب العلمية)
جواہر الفقہ میں ہے:
"قربانی کے قبول ہونے یا نہ ہونے کی پہچان انبیاء سابقین کے عہد میں یہ تھی کہ جس قربانی کو اللہ تعالی قبول فرمالے تو ایک آگ آسمان سے آتی اور اس کو جلا دیتی تھی ، سورہ آل عمران میں اس کا ذکر صراحۃً آیا ہے :
بِقُرْبَانٍ تَأْكُلُهُ النَّارُ(آل عمران:183)
"یعنی وہ قربانی جس کو آگ کھا جائے"
اس زمانے میں بذریعہ جہاد جو مال غنیمت کفار سے ہاتھ آتا تو اس کو بھی آگ نازل ہو کر کھا جاتی تھی اور یہ جہاد کے مقبول ہونے کی علامت سمجھی جاتی تھی ، امت محمد یہ پر حق تعالی کا یہ خصوصی انعام ہوا کہ قربانی کا گوشت اور مال غنیمت اُن کے لئے حلال کردئیے گئے ، حدیث میں رسول اکرم ﷺ نے اپنے خصوصی فضائل اور انعامات الہیہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
وأحلت لي الغنائم
یعنی میرے لئے مال غنیمت حلال کر دیا گیا
یہی وجہ تھی کہ عہد نبوی ﷺ کے بعض غیر مسلموں نے اپنے اسلام قبول نہ کرنے کا ایک یہ عذر بھی پیش کیا کہ پچھلے انبیاء علیہم السلام کی قربانیوں کو تو آگ کھا جایا کرتی تھی آپ کے زمانے میں ایسا نہیں ہوتا ، اس لئے ہم اس وقت تک آپ پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک یہ صورت ظاہر نہ ہو ، سورہ مائدہ میں اُن کے اس عذر لنگ کو بیان کر کے یہ جواب دیا گیا کہ جن انبیاء کے زمانے میں قربانیوں کو آگ نے کھایا تھا تم انہیں پر کون سا ایمان لائے ہو، تم نے تو ان کی بھی تکذیب ہی کی تھی ، بلکہ ان کے قتل تک سے دریغ نہ کیا تھا ، اس سے معلوم ہوا کہ تمہارا یہ قول کسی حق طلبی کے مد میں نہیں ، بلکہ حیلہ جوئی کے سوا کچھ نہیں۔"
(قربانی کی تاریخ اور اُس کی حقیقت واہمیت، ج : 6، ص : 248، ط : مکتبہ دار العلوم کراچی)
وفیہ ایضا:
"ابن کثیر نے بروایت حضرت ابن عباس نقل کیا ہے کہ اُس دُنبے کے سینگ اور سر ابتداء اسلام تک بیت اللہ کے میزاب میں معلق تھے، جس کو اولاد اسمعیل اللہ یعنی قریش مکہ نے بطور تبرک اور یادگار کے بیت اللہ میں محفوظ کر رکھا تھا، بعض حضرات کا بیان ہے کہ مینڈھے کا یہ سر اور سینگ حضرت عبداللہ بن زبیر کے زمانہ خلافت تک موجود تھے ، فتنہ حجاج میں جب بیت اللہ میں آگ لگی اُس وقت جل گئے۔
یہاں یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ خاتم الانبیاء ﷺ سے پہلے جب قربانی کا دستور یہ تھا کہ آسمانی آگ اس کو جلا دیتی تھی تو اس مینڈھے کا یہ سر اور سینگ کیسے محفوظ رہے؟ تفسیر روح البیان میں ہے کہ بنی اسرائیل کی عادت یہ تھی کہ جب کوئی قربانی کرتے تو اس کا عمدہ گوشت الگ کر کے ایک جگہ رکھ دیتے اور آسمانی آگ اس کو جلا دیتی تھی ، اس سے معلوم ہوا کہ قربانی کے جلا ادینے کا مطلب یہی تھا کہ کھانے کے قابل عمده گوشت آسمانی آگ جلا دیتی تھی، سر ، سینگ سم وغیرہ کا باقی رہ جانا مستعبد نہیں ۔"
(قربانی کی تاریخ اور اُس کی حقیقت واہمیت، ج : 6، ص : 258، ط : مکتبہ دار العلوم کراچی)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144611101568
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن