بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا کثرت سے شادی کرنا


سوال

کیا  آپ مجھے بتا سکتے ہیں  کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے سو یا اس سے زائد نکاح کیے تھے؟

جواب

تاریخی روایات میں  یہ مذکور ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کثرت سے نکاح کیے، ہر وقت ان کے نکاح میں چار عورتیں رہتی تھیں، (بیک وقت چار سے زائد عورتیں نہیں رہیں) اور ۷۰ سے زائد عورتوں سے نکاح کیے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کوفہ کے لوگوں کو کہا کرتے تھے کہ اپنی لڑکیوں کا نکاح حسن سے مت کراؤ؛ کیوں کہ وہ کثرت سے طلاق دیتا ہے، لیکن لوگ کہتے تھے کہ اللہ کی قسم اگر وہ روزانہ ہمیں پیغامِ نکاح بھیجیں تو ہم ان سے ان کی پسند کے مطابق اپنی لڑکیوں کا نکاح کرتے رہیں گے،اللہ کے رسول ﷺ سے سسرالی رشتہ داری (کی نسبت) کے حصول کے لیے۔  لہذا ان روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کثرت سے نکاح کیے تھے۔

باقی ان روایات سے جو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کثرت سے طلاق اور کثرت سے نکاح تو کوئی پسندیدہ چیز نہیں ہے، پھر انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ تو  یہ بات جاننی چاہیے کہ احادیث میں جو کثرت نکاح اور کثرت طلاق کی ممانعت آئی ہے  وہ شہوت رانی کے لیے نئے نئے نکاح کرنے اور پرانی عورت کو طلاق دینے پر وارد ہوئی ہے، جب کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا کثرت سے نکاح کرنا اور حدود شرعیہ کی رعایت کی وجہ سے پچھلی بیوی کو طلاق دینا شہوت رانی کے یے نہیں تھا، بلکہ اس غرض سے تھا کہ زیادہ سے زیادہ خاندانوں کی نسبت حضور ﷺ کے خاندان سے ہوجائے اور اس کی دلیل اہلِ کوفہ کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جواب ہے، جب انہوں نے لوگوں کو حسن رضی اللہ عنہ سے شادی کرنے سے منع کیا تو انہوں نے یہ جواب دیا کہ اگر حضرت حسن رضی اللہ عنہ روزانہ بھی رشتہ بھیجیں گے تو ہم اپنی  بچیوں میں سے جس کو وہ چاہیں نکاح میں دیں  گے؛ تاکہ حضور ﷺ کی رشتہ داری حاصل ہوجائے، نیز یہ بات بھی روایات میں بصراحت مذکور ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ ہر خاتون کو اس کے لائقِ مرتبہ احترام کے ساتھ رخصت کرتے اور خوب خوب مہر ادا کرتے تھے؛ لہذا حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا یہ فعل حدیث کی ممانعت میں نہیں آئے گا۔ 

البداية والنهاية (ط: إحياء التراث) میں ہے:

قالوا: وكان كثير التزوج،  وكان لايفارقه أربع حرائر،  وكان مطلاقًا مصداقًا، يقال: إنه أحصن سبعين امرأة، وذكروا أنه طلق امرأتين في يوم، واحدة من بني أسد وأخرى من بني فزارة - فزارية - وبعث إلى كل واحدة منهما بعشرة آلاف وبزقاق من عسل، وقال للغلام: اسمع ما تقول كل واحدة منهما، فأما الفزارية فقالت: جزاه الله خيرًا، ودعت له، وأما الأسدية  فقالت: متاع قليل من حبيب مفارق، فرجع الغلام إليه بذلك، فارتجع الأسدية وترك الفزارية. وقد كان علي يقول لأهل الكوفة: لاتزوجوه فإنه مطلاق، فيقولون: والله يا أمير المؤمنين لو خطب إلينا كل يوم لزوجناه منا من شاء ابتغاء في صهر رسول الله صلى الله عليه وسلم.  وذكروا أنه نام مع امرأته خولة بنت منظور الفزاري - وقيل: هند بنت سهيل - فوق إجار فعمدت المرأة فربطت رجله بخمارها إلى خلخالها، فلما استيقظ قال لها: ما هذا؟ فقالت: خشيت أن تقوم من وسن النوم فتسقط فأكون أشأم سخلة على العرب. فأعجبه ذلك منها، واستمر بها سبعة أيام بعد ذلك.

(سنة تسع وأربعين ج نمبر ۸ ص نمبر۴۲،دار احیاء التراث)

سير أعلام النبلاء ط الرسالة میں ہے:

وكان منكاحًا، مطلاقًا، تزوج نحوًا من سبعين امرأة، وقلما كان يفارقه أربع ضرائر. عن جعفر الصادق: أن عليًّا قال: يا أهل الكوفة! لاتزوجوا الحسن، فإنه مطلاق. فقال رجل: والله لنزوجنه، فما رضي أمسك، وما كره طلق.قال ابن سيرين: تزوج الحسن امرأة، فأرسل إليها بمائة جارية، مع كل جارية ألف درهم .

(من صغار الصحابۃ ج نمبر ۳ ص نمبر ۲۵۳،مؤسسۃ الرسالۃ)

التنوير شرح الجامع الصغير  میں ہے:

 "لا تطلقوا النساء إلا من ريبة فإن الله لا يحب الذواقين ولا الذواقات. (طب) عن أبي موسى (ض) ".

(لا تطلقوا النساء إلا من ريبة) من أمر ترتابون منه فيهن لا، أنكم تفارقوها لتأخذوا غيرها تشهيا وتطعما للنساء (فإن الله لا يحب الذواقين) من الرجال (ولا الذواقات) من النساء التي تطلب من زوجها الفراق لتزوج بغيره وليس الريبة خاصة بتهمة الفاحشة بل لو كرهها ولم يحبها حسن منه فراقها وكذلك إن خاف أن لا يقيم حدود الله فهذا الطلاق لا بأس به وليس هو بالطلاق الذي ورد فيه أنه أبغض الحلال إلى الله بل هذا يتعين عند عدم إقامة حدود الله وهو التسريح بإحسان الذي أمر الله تعالى به والطلاق المبغوض إلى الله هو الطلاق الذي ليس إلا ليذوق غيرها وتذوق غيره وإلا فهي قائمة بحدود الله وهو قائم

(مبدوء بحرف "لا"،ج نمبر ۱۱ ص نمبر ۲۳،مکتبہ دار الاسلام)

فتاوی محمودیہ:

حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے منع نہیں فرمایا تھا، بلکہ اور لوگوں سے فرمایا تھا کہ میرا یہ لڑکا طلاق دیتا ہے، لہذا تم لوگ اپنی لڑکیوں کی شادی اس سے مت کرو اور یہ منع فرمانا بھی امیر المؤمنین کی حیثیت سے حکم کے درجے میں نہیں تھا، بلکہ مشورہ کے درجے میں تھا، لہذا حضرت حسن رضی اللہ عنہ پر والد کی نافرمانی اور دوسرے لوگوں پر امیر کی اطاعت نہ کرنے کا اعتراض غلط ہے۔ طلاق نا پسندیدہ ہے، لیکن جس مقصد کے لیے یہاں طلاق کا تذکرہ آیا ہے وہ مقصد ایسا وزنی ہے کہ اس کے لیے حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اس کو اختیار فرمایا، کما صرح بہ السیوطی و غیرہ۔

(کتاب الطلاق باب المتفرقات ج نمبر ۱۳ ص نمبر ۵۹۵،جامعہ فاروقیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112201150

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں