بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 جُمادى الأولى 1446ھ 03 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات کہاں ہوئی؟


سوال

حضرت فاطمہ کی وفات کہاں ہوئی؟

جواب

کتبِ تاریخ کی روایات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات مدینہ منورہ میں ہی ہوئی ہے، پھر ایک قول کے مطابق نمازِ جنازہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے  اور راجح قول کے مطابق حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کی جنازے کی نماز پڑھائی ہے اور جنت البقیع میں مدفون ہوئیں۔

کنز العمال میں ہے:

"عن إبراهيم قال: ‌صلى ‌أبو ‌بكر ‌الصديق ‌على ‌فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم فكبر عليها أربعا."

(حرف الميم ، كتاب الموت ، صلاة الجنائز ، جلد : 15 ، صفحه : 710 ، مؤسسة الرسالة)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

"حضرت سیدۃ النساء فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی قبرکے متعلق مورخین نے مختلف روایتیں نقل کی ہیں ،شیخ عبدالحق محدث رحمۃ اللہ علیہ نے جذب القلوب الی دیار المحبوب میں ص 122  پریہ روایات ذکر کی ہیں،ایک روایت یہ بھی ہے کہ مسجد نبوی میں ہے جو کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نام سے موسوم ہے۔

اصل یہ ہے کہ رات میں دفن کی گئیں اورہرکسی کوعام طورپرتجہیز وتکفین و جنازہ میں شرکت کی نوبت نہیں آئی کیونکہ اپنی وصیت میں اس سے منع فرمایاتھا،بعض کہتے ہیں کہ  آپ  کو آپ کے حجرہ ہی میں دفن کیاگیا، پھرعمربن عبدالعزیز  رحمہ اللہ کے زمانہ میں اس حجرہ کو داخل مسجد کردیاگیا،بعض کی رائے ہے کہ آپ کا مزار شریف جنت البقیع میں ہے ، غنیۃ الناسک میں اہل  بقیع کی تفصیل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

" ومشهد عباس ابن عبد المطلب وفیه حسن بن علی عند رجلی العباس قیل وفاطمة الزهراء بجنبه وقیل فی مسجدها بالبقیع بدار الاحزان وقیل فی بیتها فی مکان المحراب الخشب الذی خلف الحجرۃ الشریفة داخل مقصورتها ورجحه ابن جماعة وقیل غیرہ" (غنیة،ص: 307)تاریخ الخمیس، جلد : 1 ، ص  278  میں مختلف اقوال نقل کئے ہیں۔فقط واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم   

(کتاب السیر والتاریخ ، جلد : 4 ، صفحہ : 544 ، طبع : فاروقیہ)

معارف الحدیث میں ہے:

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا غم تمام صحابہ کرام کے لیے جان لیوا تھا، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا تو اب اکلوتی بیٹی تھیں، پھر ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے جو غیر معمولی محبت تھی جس کا کچھ ذکر ابھی گزرا ہے اس کی وجہ سے تو یہ غم واقعی جان لیوا ثابت ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی ہی میں اس کی اطلاع بھی دے چکے تھے کہ تم سب سے پہلے میرے پاس آنے والی ہو، ابھی آپ کی وفات کو صرف چھ مہینے ہی گزرے تھے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے بھی رختِ سفر باندھ لیا اور اپنے والد صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملیں، انتقال کے وقت آپ کی عمر 29 سال یا 24 سال بتائی جاتی ہے، یہ اختلاف اصل میں سن ولادت کے اختلاف کی وجہ سے ہے، اگر آپ کی ولادت بعثت سے پانچ سال پہلے ہے تو عمر 29 سال ہو گی اور اگر ولادت کا سال بعثت سے صرف ایک سال پہلے ہے تو عمر مبارک صرف24 سال ہو گی، ابن کثیر نے عمر مبارک 29 سال اور حافظ ذہبی نے 24 سال ذکر کی ہے، واللہ اعلم

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن فرمایا، رضی اللہ عنہا وارضاہا۔"

(کتاب المناقب والفضائل، جلد : 76 ، صفحہ : 351 ، طبع : دار الاشاعت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144603102576

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں