بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت فرید الدین گنج شکررحمہ اللہ کا بارش کی دعا سے متعلق واقعہ


سوال

دہلی میں قحط سالی اور بارش کا نہ آنا، پھر فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کا ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا،اور اس پر بارش کا برسنا، اس واقعے کا اصل ماخذ کیا ہے؟ یہ واقعہ کس کتاب میں موجود ہے ؟کیا یہ واقعہ مستند ہے؟

جواب

حضرت فرید الدین مسعود  گنج شکر رحمہ اللہ کے حوالے سے سائل کا بیان کردہ کوئی واقعہ ہمیں کافی تلاش و بسیار کے باوجود  کسی بھی معتبرکتاب میں نہیں ملا،تاہم  تلاش کے نتیجے میں مذکورہ واقعہ  حضرت فرید الدین رحمہ اللہ کے شیخ  خواجہ بختیار کاکی کے ہم عصر  حضرت نظام الدین المؤید رحمہ اللہ کے حوالے سے   درج ذیل دو کتابوں میں ملا ہے:

(1) حالات و واقعات شانِ حضرت بابا فرید  گنج شکر،مؤلف:عالم فقری

(2) جواہرِ گنج شکر ،ترتیب و تدوین:محمد محسن

لیکن نظام الدین ابو المؤید رحمہ اللہ کے حوالے سے منقول اس واقعے کے بارےبھی یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ  یہ کس حد تک صحیح ہے اور مستند ہے یا نہیں یہ تحقیق نہیں ؟ذیل میں یہ واقعہ ذکر کیا جارہا ہے:

" حالات و واقعات شانِ حضرت بابا فرید  گنج شکر "میں ہے:

"دعاۓبارش:

ایک دفعہ دلی میں بارش نہ ہوئی،اس وقت دلی میں ایک بزرگ تھے، جن کا نام شیخ نظام الدین ابو المؤید تھا،لوگوں نے ان کی طرف رخ کیا،دعا کے لیے عرض کی،آپ منبر پر تشریف لاۓاور دعا کی،اے اللہ! اگر تو نے بارش نہ بھیجی تو میں کس منہ سے زندہ رہوں گا؟، یہ کہا اور منبر سے نیچے اتر آۓ،اللہ تعالیٰ نے اتنی بارش فرمائی کہ جل تھل ہوگئے،حضرت خواجہ قطب الدین بختیار رحمہ اللہ کی ان سے ملاقات ہوئی تو اس معاملے میں دریافت کیا ،مجھے تو آپ سے بڑی عقیدت تھی اور جانتا تھا کہ حضرتِ حق میں آپ کو مقامِ نیاز حاصل ہے ،لیکن آپ نے یہ کیا کہا ؟کہ اے خدا!اگر تو نے بارش نہ برسائی تو میں کیسے زندہ رہوں گا، خدانخواستہ اگر وہ بارش نہ برساتا تو آپ کیا کرتے؟ شیخ نظام الدین مؤید نے کہا میں جانتا تھا کہ وہ ضرور بارش بھیجے گا،خواجہ بختیار قدس سرہ العزیز نے دریافت فرمایا کہ آپ کیسے جانتے تھے؟، شیخ نظام نے فرمایا:ایک دفعہ سلطان شمس الدین کے دربار میں میری سید نور الدین مبارک سے کسی مسئلے پر تکرار ہوگئی،میں نے کچھ باتیں کہیں اور انہوں نے بھی، بات آئی گئی ہوگئی،انہوں نے مجھے دعاۓباراں کی اجازت عنایت فرمائی،میں سید نور الدین مبارک کے روضے پر حاضر ہوا اور عرض کی :آپ نے مجھے دعاۓباراں کی اجازت فرمائی تھی،اگر آپ مجھ سے صلح فرمالیں تو میں دعاۓباراں کی درخواست کروں گا،روضۂ انور سے آواز آئی ہم نے آپ سے صلح کرلی،دعاے باراں کریں،لہٰذا میں نے دعاۓباراں کی اور بارش ہوئی."

(ص:283،284، طباعت:ادارۃ پیغام القرآن،اردو بازار،لاہور،اشاعت:2004)

جواہرِ گنج شکر میں   مذکورہ واقعہ  کچھ وضاحت کے ساتھ درج ہے،البتہ  اس  واقعےمیں بارش کی دعا کے الفاظ یہ ہیں:

":اے پروردگار! اگر تو بارش نہیں بھیجے گا تو میں پھر کسی آبادی میں نہیں رہوں گا، کہیں جنگل میں نکل جاؤں گا"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور  پھر نظام الدین ابو المؤید رحمہ اللہ نے خواجہ بختیار کاکی رحمہ اللہ کے استفسار پر جو کچھ فرمایا وہ یہ تھا:

"ایک  مرتبہ سلطان شمس الدین کے پاس نیچے بیٹھنے پر مجھ میں اورسید نور الدین مبارک  نور اللہ مرقدہ میں  تکرار ہوپڑی، میں نے ایسی باتیں کیں  جس سے سید نور الدین ناراض ہوگئے،اب جب کہ مجھے دعاۓباران کے لیے کہا گیا تو میں نے سید صاحب کے روضے پر جا کر کہا کہ آپ مجھ سے ناراض ہیں اور لوگوں نے مجھے دعاۓباراں کے لیے کہا ہے اگر آپ مجھ سے صلح کریں تو میں دعا کروں ورنہ نہیں۔۔۔"باقی واقعہ وہی ہے جو اوپر مذکور ہوا۔

(باب پنجم،اسرار الاولیاء،انیسویں فصل،بارش کا کم ہونا،ص:231،232،طباعت:ادارۃ پیغام القرآن،اردو بازار،لاہور،سنِ اشاعت:2007)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144501101893

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں