بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول نبی کی حیثیت سے ہوگا یا امتی کی حیثیت سے؟


سوال

حضرت عیسٰی علیہ السلام آسمان سے دوبارہ نبی بن کر آئیں گے یا امتی بن کر ؟

جواب

واضح رہے کہ قرآن و حدیث کی قطعی نصوصِ  متواترہ اس پر شاہد ہیں کہ سیدنا ومولانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر اللہ رب العزت نے نبیوں اور رسولوں کا سلسلہ منتہی فرمادیا ہے،  اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت تک کے لیے نبی مقرر فرما کر ختمِ نبوت کی خلعت عطا فرمائی ہے، رسول اللہ ﷺ کے بعد قیامت تک کوئی دوسرا نبی مبعوث نہیں ہو سکتا  اور  رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر کوئی نبوت کا دعوی کرے وہ بالاجماع جھوٹا و واجب القتل ہوگا۔

دوسری طرف صحیح احادیث میں قیامت سے پہلے جہاں حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول کی خبر ملتی ہے، وہیں یہ بھی خبر ملتی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول  نئے نبی کی حیثیت سے نہیں ہوگا، بلکہ  وہ نبی آخر الزماں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی  لائی ہوئی شریعت کی پیروی کریں گے اور اسی کے مطابق امت میں فیصلے فرمائیں گے، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ اور  امتِ محمدیہ کے  اعزاز میں اس وقت کے امام  کی اقتدا  میں نماز  ادا فرمائیں گے۔

الغرض حضرت عیسیٰ علیہ السلام، آپ ﷺ سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نبی اور رسول ہوچکے ہیں، آپ قربِ  قیامت میں دجال کو قتل کرنے، صلیب توڑنے، خنزیر کو قتل کرنے اور  جزیہ اٹھانے تشریف لائیں گے،  اس وقت بھی آپ (حضرت عیسی علیہ السلام) نبی ہوں گے، لیکن یہ نبوت چوں کہ رسول اللہ ﷺ  کی نبوت سے پہلے حاصل ہوچکی ہے، اس لیے یہ ختمِ نبوت کے خلاف نہیں ہے، نیز اس زمانے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر جو وحی آئے گی بھی تو  وہ مستقل  یا نئی شریعت کے حوالے سے نہیں ہوگی، نہ  ہی آپ علیہ السلام انجیل کے مطابق فیصلہ فرمائیں گے، بلکہ  قرآنِ مجید اور  نبی کریم ﷺ  کی لائی  ہوئی شریعت اور آپ ﷺ کی بیان کردہ اخبار   (احادیث) کا نفاذ  فرمائیں گے۔

مثلًا: جزیہ ختم کرنے کا حکم  نئی شریعت کے طور  پر، یا قرآنِ مجید کا حکم منسوخ کرنے کی حیثیت سے نہیں دیں گے، بلکہ رسول اللہ  ﷺ نے   جو خبر پہلے سے  دے دی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام تشریف لاکر جزیہ ختم کریں گے، گویا اسی تشکیل کی تعمیل میں وہ جزیہ کا سلسلہ ختم فرمادیں گے۔ نیز  اللہ تعالیٰ کے حکیمانہ نظام کے مطابق اس وقت کا تقاضا یہی ہوگا کہ جزیہ کا حکم موقوف کرکے فیصلہ کن جنگ کی جائے؛ تاکہ  سرچڑھ کر بولتے شیطان کی شیطنت اور  دندناتے پھرتے دجال کے دجل سے دنیا کو پاک کیا جاسکے، چناں چہ  اس وقت جب کہ دنیا دو خیموں (فریقوں) میں تقسیم ہوچکی ہوگی، یا تو کافرِ محارب ہوں گے یا مسلمان، یعنی وہ کفار ہوں گے جو اسلام اور مسلمانوں کے راستے مسدود کرکے انہیں اپنی تابع دار یا حمایت پر مجبور کریں گے، تو یہی قرینِ مصلحت ہوگا کہ  ایک عالم گیر آپریشن کیا جائے  جس کے ذریعے پوری  دنیا میں پھیلے ہوئے ناسور کو ختم کرکے کائناتِ ارضی کی حیاتِ مستعار کو وقتِ مقررہ تک دوام بخشا جائے؛ لہٰذا حضرت عیسی علیہ السلام آسمانوں سے نازل ہوکر دجالِ اکبر کو قتل کردیں گے، اور اس مقدس جہاد کے نتیجے میں دنیا کفر و شرک کی ظلمت سے یکسر پاک ہوجائے گی، اور ایسا وقت بھی آئے گا (ان شاء اللہ) کہ دھرتی پر سوائے مسلمانوں کے کوئی باقی نہیں رہے گا، اور اس موقع پر جزیے کا حکم موقوف ہونا واضح ہے۔

ذیل میں چند نصوص ذکر کیے جاتے ہیں جو نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نئے نبی  کی آمد کی نفی پر دلالت کرتے ہیں اور  حضرت عیسی علیہ السلام کے بحیثیتِ حاکم و متبعِ شریعت محمدیہ نزول پر شاہد ہیں :

"1- قال الله عز وجل: (مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ) [الأحزاب: 40]

قال ابن كثير رحمه الله: "أخبر تعالى في كتابه ، و رسوله في السنة المتواترة عنه: أنه لا نبي بعده؛ ليعلموا أن كل مَنِ ادعى هذا المقام بعده فهو كذاب أفاك، دجال ضال مضل، و لو تخرق وشعبذ، وأتى بأنواع السحر والطلاسم، فكلها محال وضلال عند أولي الألباب، كما أجرى الله سبحانه وتعالى على يد الأسود العَنْسي باليمن، ومسيلمة الكذاب باليمامة، من الأحوال الفاسدة والأقوال الباردة، ما علم كل ذي لب وفهم وحِجى أنهما كاذبان ضالان، لعنهما الله. وكذلك كل مدع لذلك إلى يوم القيامة حتى يختموا بالمسيح الدجال. " انتهى. من "تفسير ابن كثير." (6/430-431)

وروى البخاري (3455) ومسلم (1842):

"عن أبي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ( كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمْ الْأَنْبِيَاءُ كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ ، وَإِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي)."

وروى مسلم (523):

"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: (فُضِّلْتُ عَلَى الْأَنْبِيَاءِ بِسِتٍّ: أُعْطِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ، وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ طَهُورًا وَمَسْجِدًا، وَأُرْسِلْتُ إِلَى الْخَلْقِ كَافَّةً، وَخُتِمَ بِيَ النَّبِيُّونَ)."

وروى الترمذي (2272) وصححه:

"عن أنس بن مَالِكٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: (إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدْ انْقَطَعَتْ، فَلَا رَسُولَ بَعْدِي وَ لَا نَبِيَّ). و قال محققو المسند: إسناده صحيح على شرط مسلم."

 روى البخاري (2222) ومسلم (155):

"عن أبي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: (وَ الَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمْ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا مُقْسِطًا، فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ، وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ، وَيَفِيضَ الْمَالُ حَتَّى لَايَقْبَلَهُ أَحَدٌ). قال العراقي رحمه الله: "الْمُرَادُ أَنَّهُ يَنْزِلُ حَاكِمًا بِهَذِهِ الشَّرِيعَةِ لَا نَبِيًّا بِرِسَالَةٍ مُسْتَقِلَّةٍ وَ شَرِيعَةٍ نَاسِخَةٍ؛ فَإِنَّ هَذِهِ الشَّرِيعَةَ بَاقِيَةٌ إلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَاتُنْسَخُ، وَ لَا نَبِيَّ بَعْدَ نَبِيِّنَا كَمَا نَطَقَ بِذَلِكَ، وَ هُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ بَلْ هُوَ حَاكِمٌ مِنْ حُكَّامِ هَذِهِ الْأُمَّةِ" انتهى. "طرح التثريب." (8/ 117)

وروى مسلم (156):

"عن جَابِر بْن عَبْدِ اللَّهِ قال: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: (لَاتَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ. قَالَ: فَيَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَقُولُ أَمِيرُهُمْ: تَعَالَ صَلِّ لَنَا. فَيَقُولُ: لَا إِنَّ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ أُمَرَاءُ، تَكْرِمَةَ اللَّهِ هَذِهِ الْأُمَّةَ).

وعن أبي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: (كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ) متفق عليه. قال الحافظ رحمه الله: "قَالَ أَبُو الْحَسَن الْآبِريّ فِي مَنَاقِب الشَّافِعِيّ: تَوَاتَرَتْ الْأَخْبَار بِأَنَّ الْمَهْدِيّ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّة وَ أَنَّ عِيسَى يُصَلِّي خَلْفه. وَقَالَ أَبُو ذَرّ الْهَرَوِيُّ : حَدَّثَنَا الْجَوْزَقِيّ عَنْ بَعْض الْمُتَقَدِّمِينَ قَالَ : مَعْنَى قَوْله : "وَإِمَامكُمْ مِنْكُمْ" يَعْنِي أَنَّهُ يَحْكُم بِالْقُرْآنِ لَا بِالْإِنْجِيلِ. وَ قَالَ اِبْن التِّين: مَعْنَى قَوْله: "وَ إِمَامكُمْ مِنْكُمْ" أَنَّ الشَّرِيعَة الْمُحَمَّدِيَّة مُتَّصِلَة إِلَى يَوْم الْقِيَامَة، وَ أَنَّ فِي كُلّ قَرْن طَائِفَة مِنْ أَهْل الْعِلْم. وَ قَالَ اِبْن الْجَوْزِيّ: لَوْ تَقَدَّمَ عِيسَى إِمَامًا لَوَقَعَ فِي النَّفْس إِشْكَال، وَ لَقِيلَ: أَتُرَاهُ تَقَدَّمَ نَائِبًا أَوْ مُبْتَدِئًا شَرْعًا، فَصَلَّى مَأْمُومًا لِئَلَّايَتَدَنَّس بِغُبَارِ الشُّبْهَة وَجْه قَوْله: "لَا نَبِيّ بَعْدِي."

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201345

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں