بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 ذو القعدة 1445ھ 19 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

روایت حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے میدان محشر میں اونٹنی پربیٹھ کر اذان دیتے ہوئے آنے کی تحقیق


سوال

حضرت بلال رضی اللہ عنہ میدان محشر میں اونٹنی پربیٹھ کر اذان دیتے ہوئے آئیں گے. کیا یہ صحیح ہے؟ 

جواب

سوال میں مذکور نکتہ کاذکر  ایک ضعیف روایت میں ملتا ہے، امام طبراني رحمه الله  (المتوفى: 360ھ)روايت نقل فرماتے ہیں :  

"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: يُحْشَرُ الْأَنْبِيَاءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى الدَّوَابِّ لِيُوَافُوا مِنْ قُبُورِهِمُ الْمَحْشَرَ، وَيُبْعَثُ صَالِحٌ عَلَيْهِ السَّلَامُ عَلَى نَاقَتِهِ، وَيُبْعَثُ ابْنَايَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ عَلَى نَاقَتِي الْعَضْبَاءِ، وَأُبْعَثُ عَلَى الْبُرَاقِ خَطْوُهَا عِنْدَ أَقْصَى طَرَفِهَا، وَيُبْعَثُ بِلَالٌ عَلَى نَاقَةٍ مِنْ نُوقِ الْجَنَّةِ، فَيُنَادِي بِالْأَذَانِ مَحْضًا، وَبِالشَّهَادَةِ حَقًّا حَقًّا، حَتَّى إِذَا قَالَ: أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، شَهِدَ لَهُ الْمُؤْمِنُونَ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ، فَقُبِلَتْ مِمَّنْ قُبِلَتْ وَرُدَّتْ عَلَى مَنْ رُدَّتْ". 

ترجمہ:"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے  ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن انبیاء چوپاؤں پر اکٹھے کئے جائیں گے تاکہ اپنی قبروں سے میدانِ حشر میں آئیں، صالح علیہ السلام  اپنی اونٹنی پراٹھائےجائیں گے، میرے بیٹے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما میری اونٹنی عضباء پراٹھائےجائیں گے، اور میں بُراق پر اٹھایا جاؤں گا جس کا ایک قدم اس کی نظر کی انتہا تک ہو گا، اور بلال رضی اللہ عنہ  جنّت کی اونٹنیوں میں سے ایک اونٹنی پراٹھائےجائیں گے، پس وہ (ہر قسم کے انکار وشبہ سے پاک) خالص اذان دیں گے  اور شہادت کا بھی اٹل اعلان کریں گے، جب «أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰهِ» کہیں  گے تو اگلے پچھلے تمام مومن اس کی گواہی دیں گے، تو جس کے لیے (شہادت)قبول کی جانی تھی اس کے لیے قبول کی جائے گی اور  رد  کی جائےگی جس پر رد   کی جانی تھی۔"

(المعجم الصغير، باب الهاء، من اسمه هاشم، (2/ 255) برقم (1122)، ط/ المكتب الإسلامي بيروت)

مذكوره روايت كو طبراني رحمه الله(المتوفى: 360ھ)نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے اونٹنی پر اٹھائے جانے کے تذکرے کے بغیر بھی نقل فرمایا ہے ۔

( المعجم الکبیر ،باب الحاء، بقية أخبار الحسن بن علي رضي الله عنهما، (3/ 43) برقم (2629)، ط/ مكتبة ابن تيمية - القاهرة)

حكم حديث: 

(1) امام طبرانی رحمہ اللہ(المتوفى: 360ھ)فرماتے ہیں:  

 "لَمْ يَرْوِهِ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، إِلا يَحْيَى بن أَيُّوبَ. تَفَرَّدَ بِهِ أَبُو صَالِحٍ، وَلا يُرْوَى عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، إِلا بِهَذَا الإِسْنَادِ أَبِي هُرَيْرَةَ".

يعني  اس روايت كو ابن جريج رحمه الله سے سوائے یحیي بن ایوب رحمہ اللہ کے کسی نے روایت نہیں کیا، اس کے نقل کرنے میں ابو صالح متفرد ہیں،اورحضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سےسوائے اس سند کے يه مروی نہیں ۔  

(المعجم الصغير، باب الهاء، من اسمه هاشم،(2/ 255) برقم (1122)، ط/ المكتب الإسلامي بيروت)

(2) علامہ ہیثمی رحمہ اللہ  (المتوفى: 807ھ) فرماتے ہیں : 

"رواه الطبراني في الصغير والكبير ... فيها أبو صالح كاتب الليث، وهو ضعيف، وقد وثق، وعثمان بن يحيى بن صالح المصري كذلك، وبقية رجالهما رجال الصحيح".

"یعنی اس روایت كو طبراني رحمه الله نے معجم صغیر  او رکبیر دونوں میں روایت کیا ہے، اس  روایت میں ابو صالح کاتب اللیث ہے، وہ ضعیف ہے، اور ان کی توثیق بھی کی گئی ہے، عثمان بن یحیي بن صالح بھی اسی طرح ہیں، باقی رجال ان دونوں روایات (طبرانی کی روایات) كےصحیح کے رجال ہیں ۔"

(مجمع الزوائد، باب كيف يحشر الناس، (10/ 333) برقم (18323 )، ط/ مكتبة القدسي، القاهرة)

مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ  روایت ضعیف ہے ، نیز حضرت  بلال رضی اللہ عنہ  جنّت کی اونٹنیوں میں سے ایک اونٹنی پر اٹھائے جائیں  گےاور اذان دیں گے ۔ اس طرح کی بات ایک اور طویل روایت میں بھی ذکر ہوئی ہے، لیکن محدثین  رحمہم اللہ نے اسے من گھڑت  قرار دیا ہے، محدثين كي تصريحات   ملاحظہ فرمائیں: 

(1) علامه ذهبي رحمه الله(المتوفى:  748ھ)  اسی طرح کی ایک اور روایت نقل فرما تے ہوئے لکھتے ہیں: 

"إسحاق الفروي حدثنا عيسى بن عبد الله بن محمد عن أبيه عن جده عن أبيه عمر بن علي عن علي عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إذا كان يوم القيامة حملت علي البراق، وحملتْ فاطمة على ناقتي القصواء، وحمل بلال على ناقة من نوق الجنة، وهو يؤذن يسمع الخلائق. هذا لعله موضوع. وقال ابن حبان: يروى عن آبائه أشياء موضوعة."

"يعني علامہ ذہبی رحمہ اللہ فرما رہے ہیں کہ  شایدکہ  یہ روایت من گھڑت ہے،اور  ابن حبان نےفرمایا  کہ یہ اپنے  آباء  سے من گھڑت چیزیں روایت کرتے ہیں۔ "

(2) علامه ابن حجر رحمه الله(المتوفى: 852ھ)  ذہبی رحمہ اللہ کی ذکر کردہ روایت کے بعد لکھتے ہیں :

"وذكره ابنُ حِبَّان في الثقات أيضًا وقال: كنيته أبو بكر، وفي حديثه بعض المناكير.

وقال أبو نعيم: روى عن آبائه أحاديث مناكير، لا يكتب حديثه، لا شيء.

وقال ابن عَدِي: حَدَّثَنا محمد بن الحسين عن عباد بن يعقوب عنه عن آبائه بأحاديث غير محفوظة. وحدثنا ابن هلال، عَنِ ابن الضريس عنه بأحاديث مناكير، وله غير ما ذكرت مما لا يتابع عليه".

"يعني  ابن حجر رحمه الله فرمارہے ہیں کہ ابن حبان نے انہیں (عيسى بن عبد الله بن محمد)ثقات میں ذکر کیا،  اور فرمایا کہ ان کی کنیت ابو بکر ہے، ان کی حدیث میں بعض منکر ہیں، ابو نعیم نے فرمایا: کہ یہ اپنے آباء  سے منکر احادیث روایت کرتے ہیں، ان کی احادیث لکھی نہیں جائیں گی کہ کچھ نہیں ہیں،   اور ابن عدی فرماتے ہیں کہ ہمیں محمد بن حسین نے عباد بن یعقوب کے واسطے سے ان  (عيسى بن عبد الله بن محمد)سے  بہت سی غیر محفوظ احادیث بیان کیں، اور ہمیں ابن ہلال نے ابن ضریس کے واسطےسے ان   (عيسى بن عبد الله بن محمد)سے بہت سی منکر احادیث بیان کیں، اور ان سے اور بھی چیزیں مروی ہیں جو ذکر نہیں کی گئیں جن میں ان کی متابعت کرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔"

(لسان الميزان،من اسمه عيسى، (6/ 270)  رقم الترجمة (5934 )، ط/ دار البشائر الإسلامية)

(3) علامہ سیوطی رحمہ اللہ (المتوفى:911 ھ)روایت نقل کرتے ہوئے   فرماتے ہیں:

"حوضى أشرب منه يوم القيامة، ومن اتبعنى، ومن استسقانى من الأنبياء، ويبعث الله ناقة ثمود لصالح فيحتلبها فيشرب من لبنها هو، والذين آمنوا معه من قومه، ثم يركبها من عند قبره حتى توافى به المحشر، ولها رغاء، فقيل: يا رسول الله: وأنت يومئذ على العضباء؟ قال: لا، ابنتى فاطمة على العضباء، وأحشر أنا على البراق، اختصصت به من دون الأنبياء، ويحشر بلال على ناقة من نوق الجنة، فيقدمنا بالأذان محضا، فإذا قال: أشهد أن لا إله إلا الله، قالت الأنبياء وأممها: ونحن نشهد أن لا إله إلا الله، فإذا قال: أشهد أن محمدا رسول الله، قالوا: ونحن نشهد على ذلك، فمن مقبول منه ومردود عليه، فإذا وافى بلال استقبل بحلة من حلل الجنة فيلبسها، وأول من يكسى يوم القيامة من حلل الجنة بعد الأنبياء والشهداء بلال وصالح المؤذنين".

"حميد بن زنجويه، كر عن كثير بن مرة الحضرمى، عق، كر عن عبد الكريم بن كيسان، عن سويد بن عمير قال عق: ابن كيسان مجهول، وحديثه غير محفوظ، وأورد ابن الجوزى حديث سويد (بن عمير) (في الموضوعات)، ووافقه الذهبى وقال غيره: منكر".

 

  • يعني  اس روایت کو حمید بن زنجویہ  اور ابن عساکر  نے کثیر بن مرۃ حضرمی  سے روایت کیا ہے،  عُقیلی اور  ابن عساکر نے بطریق عبد الکریم بن کیسان عن سوید بن عمیر روایت کیا ہے، عُقیلی نے کہاکہ: ابن کیسان مجہول ہے، اور اس کی حدیث غیر محفوظ ہے، اور  ابن جوزی حدیث ِسوید بن عمیر کو موضوعات میں لائے ہیں،  ذہبی  نے ان کی موافقت بھی کی ہے، اور ان کے علاوہ نے کہا: یہ روایت منکر ہے۔

(جمع الجوامع، حرف الهاء المهملة، (4/ 639) برقم (13585)، ط/ الأزهر الشريف، القاهرة)

 لہذایہ بات کہ حضرت  بلال رضی اللہ عنہ  جنّت کی اونٹنیوں میں سے ایک اونٹنی پراٹھائےجائیں گےاور اذان دیں گے، احتیاط اس میں اس ہے کہ اس  روایت کو   بیان نہ کیا جائے ۔

فقط واللہ اعلم  


فتوی نمبر : 144203200981

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں