بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری کی نوعیت


سوال

 اکثر خطباء بیان کرتے ہیں کہ حضرت ایوب علیہ السلام کے جسم میں کیڑے پڑ گئے۔  مہربانی فرما کر وضاحت فرما دیں کہ یہ روایت درست ہے یا نہیں؟ کیا یہ روایت انبیاء کی شان کے خلاف نہیں ہے؟

جواب

حضرت ایوب علیہ السلام کے بارے میں قرآنِ پاک میں اللہ رب العزت نے صرف ان کی آزمائش و تکلیف  کا تذکرہ  کیا ہے   کہ جس عارضہ میں مبتلا ہوگئے تھے، اس میں ان کے لیے سخت تکلیف اور مشقت تھی،  البتہ جسمانی تکلیف کی نوعیت کیا تھی؟  اس سلسلہ میں قرآن وحدیث میں کوئی صراحت منقول نہیں ہے، اور بدن میں کیڑے وغیرہ پڑنے کی جو باتیں عوام میں مشہور ہیں، یہ سب غیر معتبر ہیں، نیز مقامِ نبوت اور منصبِ رسالت کے بھی خلاف ہیں، اس لیے ان پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا  اور نہ ہی انہیں بیان کیا جائے۔

مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری کے متعلق معارف القرآن میں لکھا ہے:

’’حضرت ایوب علیہ السلام کے مرض کی نوعیت:
"قرآن کریم میں اتنا تو بتایا گیا ہے کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) کو ایک شدید قسم کا مرض لاحق ہو گیا تھا، لیکن اس مرض کی نوعیت نہیں بتائی گئی۔ احادیث میں بھی اس کی کوئی تفصیل آں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول نہیں ہے۔ البتہ بعض آثار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے جسم کے ہر حصے پر پھوڑے نکل آئے تھے۔  یہاں تک کہ لوگوں نے گھن کی وجہ سے آپ کو ایک کوڑی پر ڈال دیا تھا۔  لیکن بعض محقق مفسرین نے ان آثار کو درست تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر بیماریاں تو آ سکتی ہیں، لیکن انہیں ایسی بیماریوں میں مبتلا نہیں کیا جاتا جن سے لوگ گھن کرنے لگیں۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) کی بیماری بھی ایسی نہیں ہو سکتی، بلکہ یہ کوئی عام قسم کی بیماری تھی، لہٰذا وہ آثار جن میں حضرت ایوب (علیہ السلام) کی طرف پھوڑے پھنسیوں کی نسبت کی گئی ہے یا جن میں کہا گیا ہے کہ آپ کو کوڑی پر ڈال دیا گیا تھا، روایۃً  ودرایۃً  قابل اعتماد نہیں ہیں "۔ (مخلص از روح المعانی و احکام القرآن) ‘‘

فقط واللہ تعالیٰ اعلم 


فتوی نمبر : 144110200203

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں