بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے حجرہ میں کس حیثیت سے حضرت ابو بکر و حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی تدفین کروائی؟


سوال

ایک سائل جوکہ اہل تشیع ہے اس نے یہ اعتراض کیاہے کہ ہم مان گۓ کہ نبی کی وراثت نہیں ہوتی اسی لیۓ فدک مستقل سیدہ فاطمہ کو نہیں دیاگیاجب یہ قاعدہ کلیہ بن گیاتو جو حجرہ سیدہ عائشہ کا تھا وہ بھی ان کی ملکیت نہیں تھا تو اس کے اندر ابوبکر و عمر نے قبرکیوں بنوائیں جب کہ قرآن میں آیاہے کہ بغیراجازت کے نبی کے گھرمیں نہ آؤ اور یہ بھی آیاہے کہ پھر ٹھہرے نہ رہو اس سے نبی کو تکلیف ہوتی ہے تو ایسی جگہ پر انھوں نے مستقل قبور کیوں بنوائیں اور سیدہ عائشہ کی اجازت سے اس جگہ کا مستقل استعمال تو جائز نہیں تھا کیوں کہ وہ جگہ سیدہ عائشہ کی ملکیت نہیں تھی۔

جواب

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے اپنی ازواج مطہرات ، اور اپنی لخت جگر سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا،  اور اپنے متبنی حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ  کو حجرات مالکانہ تصرف و اختیار کے ساتھ ہبہ فرمائے تھے، اور یہ تمام حضرات اپنے اپنے حجروں کے مالک تھے،  پس آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کے وصال کے سبب مذکورہ حجرے امہات المؤمنين و سیدہ  فاطمۃ الزہراء  رضی اللہ عنہن سے واپس نہیں لیے گئے تھے، پس حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا اپنے حجرہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کے ساتھ اپنے والد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ  اور خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کو دفن کر نے کی اجازت دینا در حقیقت  آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کے متروکہ املاک میں تصرف کے قبیل میں سے نہیں۔بلکہ آپ رضی اللہ عنہا نے  اپنی ملکیت میں تدفین کی اجازت دی تھی۔

تحفہ اثناء عشریہ میں ہے:

" اعتراض  ٨: کہ رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم کے جحرہ مبارک کو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کامسکن تھا اپنے والد اور ان کے دوست حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کا مقبرہ بنا۔

جواب:  کتب اہل سنت میں جو احادیث صحیحہ مروی و منقول ہیں ان سے ثابت ہے کہ گاہ بصراحت گاہ با شاره آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش خبری دی ہے کہ یہ دونوں محترم حضرات آپ کے جوار میں مدفون ہوں گے۔ چنانچہ جب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی تدفین وہاں پاگئی تو جناب علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

إن كنت لاظن ان يجعلك الله مع صاحبيك، إذ كنت كثيرا اسمع رسول الله صلى الله عليه وسلم: كنت انا وابو بكر، وعمر، وقمت انا وابو بكر، وعمر، وانطلقت انا وابو بكر، وعمر.

میرا پختہ گمان تھا کہ اللہ تعالی تم کو (اے عمر)  تمہارے دونوں دوستوں کے ساتھ ملا دے گا، اس لئے کہ میں نے کئی مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کا کلام سنا کہ : میں، ابو بکر اور  عمر وہاں تھے،  میں ، ابوبکر اور عمر کھڑے تھے،  میں ، ابوبکر  اور عمر چلے"

لہذا آپ کے وہاں دفن ہونے کے جواز کا اس سے صاف اور کھلا حکم اور کیا ہوگا،  جو کمال رضا مندی اور خوشنودی کا پتہ دیتا ہے۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صریحی اجازت درکار ہوتی تو پھر جناب حسن رضی اللہ عنہ نے اس حجرہ میں دفن ہونیکی خواہش کا اظہار کیوں فرمایا تھا۔ جبکہ آپ بخوبی جانتے تھے کہ اب اس قسم کی اجازت اور حکم شرعی کا حصول نا ممکن اور محال ہے ؟

دوسرا جواب یہ ہے کہ:  ازواج مطہرات کے تمام حجرے ان کی ذاتی ملکیت تھے۔ اس لئے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مالک بنا دیا  تھا، اور ہر ایک کے لیے ایک ایک مکان نامزد فرما دیا تھا۔حکم فہمی کا بھی یہی تقاضا ہے کہ جب ایک شخص اپنی کسی اولاد کے نام کوئی مکان بنائے یا خریدے  اور پھر اس کو اسی کے قبضہ میں چھوڑے  رکھے،  تو وہ اسی کا ملک ہوجاتا ہے۔ دوسری اولاد یا وارثوں کا اس میں کوئی دخل نہیں رہتا۔ اور یہی حکم ازواج اور دیگر اقارب کا ہے۔

ازواج مطہرات کی ملکیت کا ثبوت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے اپنے مکانات میں مالکانہ تصرف  فرماتی رہتی تھیں، مثلاً توڑ پھوڑ، مرمت، ان کو تنگ یا کشادہ کرنا ۔ دروازہ نکالنا وغیرہ ۔ اور یہی حال سیدہ فاطمۃ الزہرا  اور جناب اسامہ بن زید رضی اللہ تعالٰی عنہما کے حجروں کا بھی ہے کہ یہ دونوں اپنے اپنے گھروں کے مالک تھے۔

اور قرآن مجید کی آیت"وقرن فی بیوتکن"میں اشارہ قریب قریب تصریح کے ہے۔ پھر حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا بموجودگی اصحاب کرام جن میں جناب امیر رضی اللہ عنہ   شامل تھے۔  جناب صدیقہ رضی اللہ عنہا سے اجازت  طلب کرنا، اور کسی کا بھی انکار نہ کرنا، اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ حجرہ جناب صدیقہ رضی اللہ کی ملکیت  میں تھا۔

(مطاعن ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا،  ص: ٦٣٨ تا ٦٤٠، ط: دار الاشاعت)

صحیح مسلممیں ہے :

١٤ - (٢٣٨٩) حدثنا ‌سعيد بن عمرو الأشعثي ‌وأبو الربيع العتكي ‌وأبو كريب محمد بن العلاء - واللفظ لأبي كريب، قال أبو الربيع: حدثنا، وقال الآخران: أخبرنا ‌ابن المبارك ، عن ‌عمر بن سعيد بن أبي حسين ، عن ‌ابن أبي مليكة قال: سمعت ‌ابن عباس يقول: « وضع عمر بن الخطاب على سريره فتكنفه الناس يدعون ويثنون، ويصلون عليه قبل أن يرفع، وأنا فيهم. قال: فلم يرعني إلا برجل قد أخذ بمنكبي من ورائي، فالتفت إليه فإذا هو ‌علي ، فترحم على عمر وقال: ما خلفت أحدا أحب إلي أن ألقى الله بمثل عمله منك، وايم الله إن كنت لأظن أن يجعلك الله مع صاحبيك، وذاك أني كنت أكثر أسمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: جئت أنا وأبو بكر وعمر، ودخلت أنا وأبو بكر وعمر، وخرجت أنا وأبو بكر وعمر، فإن كنت لأرجو أو لأظن أن يجعلك الله معهما ».

(كتاب فضائل الصحابة رضي الله تعالى عنهم، باب: من فضائل عمر رضي الله تعالى عنه، ٧ / ١١١، ط: دار الطباعة العامرة - تركيا)

المحيط البرهاني في الفقه النعمانيمیں ہے:

" وعن أبي يوسف لا يجوز للرجل أن يهب لامرأته، أو أن تهب لزوجها ولأجنبي دارا وهما فيها ساكنان، كذلك الهبة للولد الكبير؛ لأن الواهب إذا كان في الدار فيده بائن على الدار، وذلك يمنع تمام يد الموهوب له، قال: ولو وهبها لابنه الصغير وهو ساكن فيها يعني الواهب جاز وقد مر."

( كتاب الهبة والصدقة، الفصل الخامس: في الرجوع في الهبة، ٦ / ٢٥٠، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية."

(كتاب الهبة، الباب الثاني فيما يجوز من الهبة وما لا يجوز، ٤ / ٣٧٨، ط: دار الفكر)

درر الحكام في شرح مجلة الأحكاممیں ہے:

"المادة (١١٩٢) - (كل يتصرف في ملكه كيفما شاء. لكن إذا تعلق حق الغير به فيمنع المالك من تصرفه على وجه الاستقلال. مثلًا: الأبنية التي فوقانيها ملك لأحد وتحتانيها لآخر فبما أن لصاحب الفوقاني حق القرار في التحتاني ولصاحب التحتاني حق السقف في الفوقاني أي حق التستر والتحفظ من الشمس والمطر فليس لأحدهما أن يعمل عملًا مضرًّا بالآخر بدون إذنه ولا أن يهدم بناء نفسه).

كل يتصرف في ملكه المستقل كيفما شاء أي أنه يتصرف كما يريد باختياره أي لا يجوز منعه من التصرف من قبل أي أحد هذا إذا لم يكن في ذلك ضرر فاحش للغير."

( الباب الثالث في بيان المسائل المتعلقة بالحيطان والجيران، الفصل الأول في بيان بعض القواعد المتعلقة بأحكام الأملاك،٣ / ٢٠١، ط: دار الجيل)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144507100200

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں