بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کے نام کے ساتھ علیہ السلام لکھنا


سوال

کیا علی رضی اللہ عنہ کے نام کے ساتھ علیہ السلام لکھنا درست ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کسی بزرگ کے نام کے ساتھ "علیہ السلام" کا لفظ کہنا معنیٰ کے اعتبار سے غلط  نہیں ہے؛ کیوں کہ’’علیہ السلام‘‘کا معنیٰ ہے:’’اس پر سلامتی ہو‘‘، اور ہم آپس میں بھی جو ایک دوسرے کو سلام کرتے ہیں ’’السلام علیکم‘‘ اس کے بھی یہی معنیٰ ہیں کہ ’’تم پر سلامتی ہو‘‘، البتہ اہلِ سنت والجماعت کے عرف میں ’’علیہ السلام‘‘انبیاء ’’علیھم الصلاۃ والسلام‘‘کے ساتھ خاص ہے۔ اور اصطلاحی طور پر مذکورہ کلمات ان کے ساتھ خاص ہیں ، اور ان کی شناخت ہیں، اس کے خلاف استعمال کرنے سے شناخت میں اشتباہ ہوتا ہے ، جیساکہ:زندہ آدمی کےلیے دعا ئیہ کلمات:’’مدظلہ ،دامت برکاتہ ،‘‘اور میت کے لیے ’’رحمہ اللہ‘‘ وغیرہ کے الفاظ کا استعمال کا تعامل ہے ، اگر اس کے خلاف کیا جائے اور کسی زندہ آدمی کے ساتھ’’ رحمہ اللہ‘‘ بولا یا لکھا جائےتو بڑا عیب سمجھا جاتا ہے،اسی طرح ان اصطلاحات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔دوم یہ ہے کہ ’’رضی اللہ عنہ‘‘کے الفاظ صحابۂ کرام  ’’رضی اللہ عنھم ‘‘کے ساتھ خاص ہیں۔ حضرت علی، حضرت حسن وحسین رضی اللہ عنہم کے ناموں کے ساتھ علیہ السلام لکھنا بعض باطل فرقہ  کا شعار ہے، جو ان کے غلط عقائد کی طرف مشیر ہے۔لہذا مسلمانوں  کو ان ناموں کے ساتھ’’علیہ السلام‘‘ لکھنے سے احتراز کرنا چاہیے۔تاکہ اہل باطل کے ساتھ مشابہت نہ ہو ۔۔

حدیث شریف میں ہے:

'' قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم :... من تشبه بقوم فهو منهم''.

(سنن أبی داؤد ،باب فی لبس الشھرۃ،رقم الحدیث :4031،ج:6،ص:144،ط:دارالرسالة العالمیة)

ترجمہ:"حضورصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا ارشاد ہے: جس شخص نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی  تو وہ شخص اسی قوم میں شمار ہوگا۔"

فتاوی شامی میں ہے:

"و أما السلام فنقل اللقاني في شرح جوهرة التوحيد عن الإمام الجويني أنه في معنى الصلاة، فلايستعمل في الغائب و لايفرد به غير الأنبياء فلايقال: علي -عليه السلام- وسواء في هذا الأحياء و الأموات إلا في الحاضر، .

أقول: و من الحاضر السلام علينا و على عباد الله الصالحين، و الظاهر أن العلة في منع السلام ما قاله النووي في علة منع الصلاة أن ذلك شعار أهل البدع."

(مسائل شتی،ج:6،ص:753،ط:ایچ ایم سعید)

مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"ملاعلی قاری رحمہ اللہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ  ’’علیہ السلام‘‘  لکھنے کوشعارِ شیعہ واہلِ بدعت فرمایاہے،اس  لیے وہ منع فرماتے ہیں..."۔

  (فتاوی محمودیہ،ج:19،ص:145،ط:دارالافتاء فاروقیہ)

حضرت مولانامحمدیوسف لدھیانوی شہیدرحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"اہل سنت والجماعت کے یہاں ’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ اور ’’علیہ السلام‘‘ انبیائے کرام کے لیے لکھاجاتاہے،صحابہ کے لیے ’’رضی اللہ عنہ‘‘ لکھنا چاہیے، حضرت علی کے نامِ نامی پر’’کرم اللہ وجہہ‘‘ بھی لکھتے ہیں۔"

(آپ کے مسائل اوران کاحل،ج:1،ص:202،ط:لدھیانوی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101079

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں