بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل وعیال کا روزہ کی حالت میں باوجود ضرورت کے روٹیاں فقیر کو دے دینا، واقعہ کی تحقیق


سوال

َایک دن حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سب گھر والے روزے سےتھے، ایک فقیر  کھانے کے لیےدروازے پر آیا ، حضرت علی  رضی اللہ عنہ نے اس کو ایک  روٹی دی،حضراتِ حسنین رضی اللہ عنہما  نے بھی ایک ایک روٹی دےدی، حضرت فاطمہ  رضی اللہ عنہانے بھی ایک روٹی دے دی،اور حضرت علی رضی اللہ عنہ  کی خادمہ نے بھی ایک روٹی دے دی،  باوجودیکہ ان  سب کے پاس خود کھانےکو   میسر نہیں تھا۔ کیا یہ واقعہ  صحیح ہے؟

جواب

سوال میں حضرت علی رضی اللہ عنہ  اور ان کے اہل وعیال سے متعلق جس واقعہ کاذ کر کرکے اس کے بارے میں د ریافت کیا گیا ہے، یہ واقعہ "نوادر الأصول للحكيم الترمذي"، "الكشف والبيان عن تفسير القرآن (تفسير الثعلبي)"، "الجامع لأحكام القرآن (تفسير القرطبي)"، "البداية والنهاية لابن كثير"میں  کافی تفصیل کے ساتھ مذکورہے۔تاہم اس واقعہ  میں   اس طرح مذکور نہیں ہے کہ حضرت علی ،حضرت فاطمہ ، حضراتِ حسنین،  اور خادمہ رضی اللہ عنہم میں سے ہر ایک نے اپنی اپنی روٹی فقیر کو   دے دی ، بلکہ یوں ذکر  ہے کہ  ابھی کھانا لگا ہی تھا  کہ فقیر نے   صدا لگائی تو ساری روٹیاں اس کو دے دیں۔ 

واقعہ کا   خلاصہ  یہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت حسن اور حسین  رضی اللہ عنہما  بیمار ہوگئے تو حضرت علی، حضرت فاطمہ اور ان کی خادمہ رضی اللہ عنہم  نے منت مانی کہ اگر یہ دونوں بچے ٹھیک ہوگئے تو ہم تین دن کے روزے رکھیں گے، جب دونوں بچے ٹھیک ہوگئے تو تینوں نے روزہ رکھا ، گھر میں کھانے کو کچھ نہیں تھاتو حضرت علی  رضی اللہ  عنہ نے شمعون یہودی  سے تين جَو ادھار لیے، اس کو پیس کر کچھ روٹیاں پکائی گئیں،  حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں مغرب کی نماز پڑھ کر گھر تشریف لائے ، ابھی  کھانا  لگایاہی گیا تھاکہ  ایک  فقیر  نے صدا لگائی تو وہ ساری روٹیاں اس  فقیر  کو دے دیں،  اسی طرح دوسرے دن ایک یتیم نے صدا لگائی تو  وہ ساری روٹیاں اس یتیم کو دے دیں اور تیسرے دن ایک قیدی نے صدا لگائی تو  وہ ساری  روٹیاں اس کو دے دیں۔مذکورہ واقعہ   کی مکمل تفصیل کے لیے  حکیم ترمذی رحمہ اللہ  کی  "نوادر الأصول"(الأصل الثالث والأربعون، ج:1، ص:244-247، ط: دار الجيل- بيروت) ملاحظہ فرمائیں۔

تاہم   یہ واقعہ  سند کے اعتبار  سے موضوع (من گھڑت) ہے۔حافظ ابنِ جوزی رحمہ اللہ "الموضوعات"میں"أبُو عبدِ اللهِ السَّمرقنديُّ عنْ محمَّد بنِ كثيرٍ الكوفيِّ عنِ الأَصبغ بنِ نباتة"کے طریق سے مذکورہ واقعہ  مختصراً نقل کرنے کے بعد  اس کا حکم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"وهَذا حديثٌ لا يُشكُّ في وَضعِه، ولولم يدلَّ على ذلك إلّا الأشعارُ الركيكةُ والأفعالُ الَّتي يتنزَّه عنها أُولئك السَّادةُ. قال يحيى بنُ معينٍ: أصبغ بنُ نباتة لا يُساوِيْ شَيئاً. وقال أحمد بنُ حنبل: حَرقْنا حديثَ محمّد بن كثيرٍ. وأمّا أبو عبدِ الله السَّمرقَنديُّ فلا يُوثق بِه".

ترجمہ:

’’(اولاً حدیث کا حکم بیان کرتے ہیں):اس حدیث کے موضوع(من گھڑت) ہونے میں کوئی شک  نہیں کیا جاسکتا،اگرچہ اس (کے موضوع ہونے )پر   صرف وہ    رکیک وکمزور اشعار وافعال    ہی دلالت کرتے ہوں(جو اس واقعہ کے ذیل میں مذکور ہیں) ۔(پھر  مذکورہ حدیث کے طریق پر کلام کرتے ہوئے لکھتے  ہیں):(امام) یحیی بن معین(سند کے پہلے راوی  پر کلام کرتے ہوئے ) فرماتے ہیں:اصبغ بن نباتہ"لا يُساوِيْ شَيئاً"( الفاطِ جرح )ہے۔(امام) احمد بن حنبل رحمہ اللہ(دوسرے راوی پر کلام کرتے ہوئے ) فرماتے ہیں:ہم نے محمد بن کثیر(کوفی) کی حدیثیں (معتبر نہ ہونے کی وجہ سے)جلا ڈالیں۔رہا ( سند کاتیسرا  راوی) ابو عبد اللہ السمر قندی ،تو اس  پر  بھروسہ نہیں کیا جاسکتا‘‘۔

(الموضوعات، كتاب الفضائل والمثالب، الحديث الثالث والأربعون،  ج:1، ص:390-392، ط: المكتبة السلفية- المدينة المنورة)

حافظ سیوطی رحمہ اللہ"اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة"میں لکھتے ہیں:

"مَوضوعٌ. أصبغُ لا يُساوِيْ شَيئاً، والْكُوفيُّ والسَّمرقَنديُّ ضَعيفانِ".

ترجمہ:

’’(اولاً حدیث کا حکم بیان کرتے ہیں):(یہ حدیث) موضوع(من گھڑت) ہے۔(پھر مذکورہ حدیث کے طریق پر کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں):اصبغ  "لا يُساوِيْ شَيئاً"( الفاطِ جرح )ہے، (محمد بن کثیر) الکوفی اور (ابو عبد اللہ) السمر قندی ، دونوں ضعیف ہیں‘‘۔

(اللآلىء المصنوعة، كتاب المناقب، 1/339، ط: دار الكتب العلمية-بيروت)

حافظ ابنِ عرّاق رحمہ اللہ"تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة"میں لکھتے ہیں:

"قال الحافظ ابنُ حجر في"لسان الميزان" في ترجمةَ (القاسِم بنِ بِهرام قَاضِيْ هِيْت): إنّه صَاحبُ هَذا الحديثِ، يَعنيْ مُفتعِلُه، واللهُ -تَعالى- أعلمُ".

ترجمہ:

’’حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  "لسان الميزان" میں،’’قاسم بن بہرام قاضی ہیت‘‘ کے حالات میں لکھتے ہیں:یہ اس حدیث کو گھڑنے والا ہے، واللہ تعالی اعلم‘‘۔

(تنزيه الشريعة، كتاب المناقب والمثالب، باب المناقب الخلفاء الأربعة، الفصل الأول، 1/363، رقم:67، ط: دار الكتب العلمية-بيروت)

حافظ ابن تیمیہ  رحمہ اللہ نے"منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية"میں اولاً اس واقعہ کا حکم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"أنَّ هَذا الحديثَ مِنَ الكذبِ الموضوع بِاتفاقِ أهلِ المعرفةِ بِالحديثِ، الذي هم أئمةُ هَذا الشّأنِ وحُكّامُه، وقَولُ هَؤُلاءِ هُو المنقولُ في هَذا البابِ، ولِهذا لَمْ يُروَ هَذا الحديثَ في شَيءٍ مِنَ الكُتبِ الّتي يُرجعُ إِليها في النقلِ، لَا في الصِّحاحِ، ولَا في المَسَانيدِ، ولَا في الجْوامعِ، ولَا السّننِ، ولَا رَواه المصنِّفُون في الفضائلِ، وإنْ كانُوا قد يَتسامحُون في رِوايةِ أحاديثِ ضعيفةٍ".

ترجمہ:

’’یہ حدیث  ان اہلِ معرفتِ حدیث(محدثین کرام رحمہم اللہ) کے ہاں بالاتفاق  جھوٹ ،من گھڑت ہے ،جو اس میدان کے  مقتداء اور حکام  ہیں، اور انہی حضرات کا قول اس باب میں  نقل کیا جاتا ہے، اسی لیے  یہ حدیث  ان کتب میں  سے کسی میں  بھی مروی نہیں ہے جن  کتب کی طرف (حدیث )   نقل کرنے کے لیے  رجوع کیاجاتا ہے، نہ ہی کتبِ صحاح میں،نہ ہی مسانید میں،نہ ہی جوامع میں، نہ ہی سنن میں، اور نہ ہی(کتبِ فضائل کے ) مصنفین نے فضائل(کے باب ) میں اسے روایت کیا ہے،اگرچہ وہ حضرات بسا اوقات  احادیثِ ضعیفہ کےروایت کرنے میں  تسامح سے کام لے لیتے ہیں‘‘۔

اورپھر اس کے موضوع ہونے پر    تیرہ(۱۳) وجوہ ودلائل تفصیل کے ساتھ ذکر  کیے ہیں۔

(منهاج السنة، الفصل الثالث، المنهج الثاني عند الرافضي في الأدلة من القرآن على إمامة علي، البرهان الحادي والعشرون، ج:7، ص:174-187، ط:جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية)

نیز علامہ قرطبي  رحمه الله  نے"الجامع لأحكام القرآن"(سورة الإنسان، ج:19، ص:131-135، ط: دار الكتب المصرية-القاهرة)میں ،  حکیم ترمذی رحمہ اللہ نے "نوادر الأصول"(الأصل الثالث والأربعون، ج:1، ص:244-247، ط: دار الجيل- بيروت)میں، اور حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ نے "البداية والنهاية"(5/351، ط: دار إحياء التراث العربي-بيروت)میں  مذکورہ واقعہ کے موضوع ہونے کو بیان کیا ہے۔

مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ  حضرت علی رضی اللہ عنہ  اور ان کے اہل وعیال  کا روزہ کی حالت میں باوجود ضرورت کے روٹیاں فقیر  کو دے دینے سے  متعلق واقعہ موضوع(من گھڑت )  ہے، لہذا اسے بیان کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508100314

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں