بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی پیدائش کس تاریخ کو ہوئی؟


سوال

کیا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی پیدائش 13 رجب المرجب ہے ؟اس حوالے سے وضاحت فرما دیں۔

جواب

حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ راجح قول کے مطابق  بعثتِ نبوی سے دس سال قبل مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے،تاہم آپ رضی اللہ عنہ کی  متعین تاریخ ِولادت  کے حوالے سےکوئی راجح اور یقینی بات مستند کتب میں  موجود نہیں ہے ،کیوں کہ پہلے کے زمانے میں تاریخ ولادت کی تعیین کاکوئی خاص اہتمام نہ تھا،باقی"13 رجب" بطور تاریخ ِ ولادت تومشہور ہے، لیکن درحقیقیت یہ محض ظن اور تخمینہ ہے،نہ کہ کوئی معتبر روایت،اور جس واقعہ سے اندازہ لگاکر مذکورہ تاریخ پر استدلال کیا گیا ہے، اس پر شاہ عبد العزیز محدثِ دہلوی رحمہ اللہ نے "تحفۂ اثنا عشریہ " میں رد کیا ہے،  اس لیے اس بابت کوئی یقینی اور معتمد بات نہیں کہی جاسکتی،نیز  بعض حضرات نے یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت علی  رضی اللہ عنہ کی پیدائش بیت اللہ کے اندر ہوئی تھی، لیکن یہ قول بھی مرجوح ہے، راجح قول کے مطابق بیت اللہ کے اندر صرف  حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ  کی ولادت ہوئی، ان کے علاوہ کسی اور شخص کی ولادت  بیت اللہ میں نہیں ہوئی۔

الإصابہ فی تمییز الصحابہ میں ہے:

"‌علي ‌بن ‌أبي ‌طالب الهاشمي رضي الله عنه

ابن عبد المطلب بن هاشم بن عبد مناف القرشي الهاشمي، أبو الحسن.

أول الناس إسلاما في قول كثير من أهل العلم. ولد ‌قبل ‌البعثة بعشر سنين على الصحيح، فربّي في حجر النبيّ صلى الله عليه وسلم ولم يفارقه، وشهد معه المشاهد إلا غزوة تبوك، فقال له بسبب تأخيره له بالمدينة:«ألا ترضى أن تكون منّي بمنزلة هارون من موسى» .

وزوّجه بنته فاطمة.وكان اللواء بيده في أكثر المشاهد، ولما آخى النبيّ صلى الله عليه وسلم بين أصحابه قال له: أنت أخي.

ومناقبه كثيرة حتى قال الإمام أحمد: لم ينقل لأحد من الصحابة ما نقل لعلي وقال غيره: وكان سبب ذلك بغض بني أمية له، فكان كلّ من كان عنده علم من شيء من مناقبه من الصحابة يثبته، وكلما أرادوا إخماده وهدّدوا من حدث بمناقبه لا يزداد إلا انتشارا.

وقد ولد له الرافضة مناقب موضوعة هو غنيّ عنها، وتتبّع النسائي ما خص به من دون الصحابة، فجمع من ذلك شيئا كثيرا بأسانيد أكثرها جياد.

روى عن النبيّ صلى الله عليه وسلم كثيرا..."

(‌‌العين بعدها اللام، ج:4، ص:464،465، ط:دارالكتب العلمية)

تدريب الراوی میں ہے:

"قال شیخ الإسلام: و لایعرف ذٰلك لغیرہ، و ما وقع في ”مستدرک الحاکم“ - من أن علیًّا وُلِدَ فیھا - ضعیفٌ."

(النوع الستون: التواریخ والوفیات، فرع الثاني: صحابیان عاشا ستین سنة في الجاهلیة: ج:2، ص:682، دار العاصمة)

تہذیب الاسماء للنووی میں ہے:

"قالوا: ولد حکیم (بن حزام) في جوف الکعبة، ولا یعرف أحد ولد فیھا غیرہ، وأما ما روي أن علي ابن أبي طالب رضي اللہ عنه ولد فیھا؛ فضعیف عند العلماء."

 (حرف الحاء المهملة، حکیم بن حزام: ج:1، ص:166، دارالکتب العلمیة)

شرح نہج البلاغہ لابن عبدالحمید بن ھبۃ اللہ میں ہے:

"واختلف في مولد علي (رضي اللہ عنه) أین کان؟ فکثیر من الشیعة یزعمون أنه ولد في الکعبة، والمحدّثون لایعترفون بذلك، ویزعمون أن المولود في الکعبة حکیم بن حزام بن خویلد بن أسد بن عبد العزی بن قصي."

(القول في نسب أمیر المؤمنین علي بن أبي طالب وذکر لمع بسیرة من فضائله: ج:1، ص:14، دار الجیل)

تحفۂ اثنا عشریہ میں ہے:

"فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا کے متعلق جو یہ کہا گیا کہ ان کو وحی ہوئی کہ خانۂ کعبہ میں جا کر وضح حمل کریں، درحقیقت ایک بے لطف جھوٹ ہے،کیوں کہ اسلامی یاغیر اسلامی کسی فرقے کے نزدیک بھی وہ نبی نہیں تھیں، پھر حجاج نے اس کو کس بناءپرتسلیم کر لیا، یہ قابل تعجب بات ہے ۔

مشہورروایت میں آیا ہے کہ ایام جاہلیت میں یہ رواج تھا کہ رجب کی پندرہ تاریخ کو کعبہ کا دروازہ کھولتے اور اس مبارک گھر کی زیارت کے لیے اندر داخل ہوتے،حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش بھی چوں کہ اسی دن ہوئی تھی،اسی لیے اس کو یوم الاستفتاح  یاروزمریم کہتے ہیں۔

بزرگوں نے اس دن کے کچھ اور اوراد و وظائف بھی مقرر کیے ہیں، رسم یہ تھی کہ اس دن سے ایک دو روز پہلے عورتیں کعبہ کی زیارت کرتیں،اتفاقاًعورتوں کے لیے مخصوص انہیں دنوں میں فاطمہ بنت اسد  رضی اللہ عنہانے بھی زیارت کا ارادہ کیا،گو ان کی عدت گزر چکی تھی مگر یہ دن چوں کہ سال میں ایک ہی مرتبہ آتا تھا؛ اس لیے باوجود ایسے دنوں میں حرکت و دشواری، باعث ِتکلیف ہوتی ہے،مگر انہوں نے تکلیف برداشت کر کے اپنے کو کعبہ کے در وازے تک پہنچایا،اس زمانے میں بھی باب کعبہ قدآدم سے اونچاتھااور سیڑھی وغیرہ بھی نہیں ہوتی تھی ؛اس لیے عورتوں کو ان کے مرد بدقت ِتمام اوپر چڑھاتے تھے ۔

چنانچہ اس اُٹھانے بٹھانے کے سبب درد میں اضافہ ہو گیا،فاطمہ نے خیال کیا کہ تھوڑی دیر میں یہ تکلیف جاتی رہے گی،میں اس کی وجہ سے زیارت کعبہ سے کیوں محروم رہوں، جیسے ہی دروازہ میں داخل ہوئیں، درد نے شدت اختیار کر لی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولادت ہو گئی ۔

شیعوں کی روایات میں یہ واقعہ دوسرے انداز سے بیان ہوا ہے کہ مدت حمل گزر جانے  اور درد کی شدت میں اضافہ کے سبب جناب ابو طالب مایوس ہوکر شفا طلبی کے لیے ان کو کعبہ میں لے گئے،اللہ تعالی نےفضل فرمایااور جلد ولادت ہو گئی ."

 

(تحفہ اثنا عشریہ(اُردو)،زیر ِعنوان:ستائیسواں دھوکہ ،ص:165، ط:دارالإشاعت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507101267

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں