بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ اولاد کو سید کہنا ؍ غیر سید کا اپنے نام کے ساتھ سید لگانا


سوال

  حضرت علی ؓ کی حضرت فاطمہؓ کے علاوہ سے جو اولاد ہے،  کیا ان کو سید کہا جا سکتا ہے ؟  اگر کوئی اپنے نام سے پہلے سید لگائے اور وہ سید نہ ہو تو کیا ایسا کرنا صحیح ہے ؟

جواب

بنی ہاشم میں سےحضرت  علی، حضرت جعفر ،حضرت  عباس ، حضرت عقیل اور حضرت حارث بن عبد المطلب رضی اللہ عنہم کی اولاد سب ’’سادات‘‘   ہیں۔  ان سب کے  لیے اپنے نام کے ساتھ ’’سید‘‘  لگانا جائز ہے، ابتدائی عہد  میں ان سب حضرات کو سید کہا جاتا تھا، لیکن بعد میں یہ اصطلاح خاص ہوگئی،  چناں چہ  ہمارے عرف میں ’’سید‘‘  صرف وہ گھرانے  ہیں  جو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے صاحب زادگان حضرت حسن و حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی اولاد سے ہوں، ان ہی کا لقب  ’’سید‘‘ ہے، اور یہ  ان کی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبی نسبت کی علامت ہے،  اس لیے صرف حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی نسل  سے آنے والے گھرانوں کو ہی اپنے نام کے ساتھ  ’’سید‘‘ لکھنا  چاہیے،جب کہ ان کے علاوہ دیگر سادات کے  لیے اگرچہ اپنے نام کے ساتھ ’’سید‘‘ لگانا جائز تو ہے، لیکن مناسب نہیں،  خصوصاً جہاں اشتباہ ہو ۔ جب کہ جو لوگ سرے سے ’’سادات‘‘ (یعنی مذکورہ پانچ خاندانوں) میں سے ہی نہ ہوں،  ان کے  لیے  اپنے نام کے  ساتھ  لفظِ ’’سید‘‘ لگانا جائز  ہی نہیں ہے۔

مرقاة المفاتيح میں ہے:

"(وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (لاترغبوا) : أي: لاتعرضوا (عن آبائكم) : أي: عن الانتماء إليهم (فمن رغب عن أبيه) : أي: وانتسب إلى غيره (فقد كفر) : أي قارب الكفر، أو يخشى عليه الكفر. في النهاية: الدعوة بالكسر في النسب، وهو أن ينتسب الإنسان إلى غير أبيه وعشيرته، وكانوا يفعلونه فنهوا عنه، والادعاء إلى غير الأب مع العلم به حرام، فمن اعتقد إباحته كفر لمخالفة الإجماع، ومن لم يعتقد إباحته فمعنى (كفر) : وجهان، أحدهما: أنه أشبه فعله فعل الكفار، والثاني: أنه كافر نعمة الإسلام. قال الطيبي: ومعنى قوله: فالجنة عليه حرام على الأول ظاهر، وعلى الثاني تغليظ (متفق عليه) . ولفظ ابن الهمام: " «من ادعى أبا في الإسلام غير أبيه، وهو يعلم أنه غير أبيه، فالجنة عليه حرام» ) : وأما لفظ الكتاب فمطابق لما في الجامع الصغير."

(كتاب النكاح، باب اللعان، ج5، ص2170، دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

’’ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب، كذا في الهداية‘‘.

(كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف، ج1، ص189، ط : رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے :

’’(قوله: وبني هاشم إلخ) اعلم أن عبد مناف وهو الأب الرابع للنبي صلى الله عليه وسلم أعقب أربعةً وهم: هاشم والمطلب ونوفل وعبد شمس، ثم هاشم أعقب أربعةً، انقطع نسل الكل إلا عبد المطلب؛ فإنه أعقب اثني عشر، تصرف الزكاة إلى أولاد كل إذا كانوا مسلمين فقراء إلا أولاد عباس وحارث وأولاد أبي طالب من علي وجعفر وعقيل، قهستاني، وبه علم أن إطلاق بني هاشم مما لا ينبغي؛ إذ لاتحرم عليهم كلهم، بل على بعضهم، ولهذا قال في الحواشي السعدية: إن آل أبي لهب ينسبون أيضاً إلى هاشم، وتحل لهم الصدقة. اهـ.وأجاب في النهر بقوله: وأقول: قال في النافع بعد ذكر بني هاشم: إلا من أبطل النص قرابته يعني به قوله صلى الله عليه وسلم: «لا قرابة بيني وبين أبي لهب؛ فإنه آثر علينا الأفجرين»، وهذا صريح في انقطاع نسبته عن هاشم، وبه ظهر أن في اقتصار المصنف على بني هاشم كفاية، فإن من أسلم من أولاد أبي لهب غير داخل؛ لعدم قرابته، وهذا حسن جداً، لم أر من نحا نحوه، فتدبره. اهـ‘‘. 

(كتاب الزكاة، باب المصرف، ج2، ص350، ط : سعيد)

امام عبد الرحمن جلال الدین سیوطی شافعی (متوفی : 911 ھ) رحمۃ اللہ علیہ اپنے رسا لہ "العجاجة الزرنبیة في السلالة الزینبیة" میں ارقام کرتے ہیں :

"إن اسم الشریف کان یطلق في الصدر الأول علی کل من کان من أهل البیت، سواء کان حسنیاً أم حسینیاً أم علویاً من ذریة محمد بن الحنفیة وغیره من أولاد علي بن أبي طالب، أم جعفریاً أم عقیلیاً أم عباسیاً ... فلما ولی الخلفاء الفاطمیون بمصر، قصروا اسم الشریف علی ذریة الحسن والحسین فقط، فاستمر ذلك بمصر إلی الآن".
ترجمہ : یعنی بے شک ’’سید‘‘ کا اطلاق قرونِ اولی میں ہر اُس شخص پر ہوتا تھا جو اہلِ بیت کرام سے ہو، چاہے وہ حسنی ہو ،حسینی ہو ،یا علوی ہو محمد بن حنفیہ کی اولاد اور دیگر اولادِ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے، یا جعفری ہو یا عقیلی ہو یاعباسی ۔۔۔  جب مصر میں خلفاءِ فاطمیین کو حکومت ملی تو انہوں نے سید  کا لفظ فقط  حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی اولاد کے  لیے مختص کردیا، چناں چہ یہ تخصیص اس دور سے اب تک قائم ہے۔‘‘ 

(الحاوی للفتاوی للسیوطی ۔ جلد02 ۔ صفحہ39 ۔ دارالفکر ۔ بیروت)

منقول از فتوی نمبر 144212200867

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101793

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں