بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پیدائش


سوال

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پیدائش کا وقت کون سا ہے؟

جواب

حضرت علی رضی اللہ عنہ بعثتِ نبوی سے دس سال قبل مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے، تاریخ کی تعیین نہیں ملتی، لیکن بعض حضرات  13 رجب کی تاریخ بتلاتے ہیں، تاہم یہ صرف اندازہ اور تخمینہ ہے اور ان حضرات نے جس واقعہ سے اندازہ لگاکر مذکورہ تاریخ پر استدلال کیا ہے، اس پر شاہ عبد العزیز محدثِ دہلوی رحمہ اللہ نے رد کیا ہے، بعض حضرات نے یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت علی  رضی اللہ عنہ کی پیدائش بیت اللہ کے اندر ہوئی تھی، لیکن یہ قول بھی مرجوح ہے، راجح قول کے مطابق بیت اللہ کے اندر حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ  کے علاوہ کسی اور شخص کی ولادت نہیں ہوئی۔

الإصابة في تمییز الصحابة  میں ہے:

"علي بن أبي طالب الهاشمي رضي الله عنه بن عبد المطلب بن هاشم بن عبد مناف القرشي الهاشمي أبو الحسن. أول الناس إسلاما في قول كثير من أهل العلم. ولد قبل البعثة بعشر سنين على الصحيح، ‌فربي ‌في ‌حجر النبي صلى الله عليه وسلم و لم يفارقه."

(العين بعدها اللام، ج:4، ص:464، ط:دار الكتب العلمية)

تهذيب الأسماء و اللغات للنووي  میں ہے:

"ولد حکیم (بن حزام) في جوف الکعبة، و لایعرف أحد ولد فیھا غیرہ، و أما ما روي أن علي ابن أبي طالب رضي اللہ عنه ولد فیھا، فضعیف عند العلماء."

(حرف الحاء المهملة، ج:1، ص:166، ط: دار الکتب العلمیة)

السیرة الحلبیة   میں ہے:

"و قيل: الذي ولد في الكعبة حكيم بن حزام. قال بعضهم: لا مانع من ولادة كليهما في الكعبة، لكن في النور: حكيم بن حزام ولد في جوف الكعبة و لايعرف ذلك لغيره. و أما ما روي أن عليًّا ولد فيها، ‌فضعيف ‌عند ‌العلماء."

(باب: تزوجه صلى الله عليه وسلم خديجة بنت خويلد رضي الله عنها، ج:1، ص:202، ط:دار الكتب العلمية)

حضرت شاہ عبد العزیز محدثِ دہلوی لکھتے ہیں:

"فاطمہ بنتِ اسد رضی اللہ عنہا کے متعلق جو یہ کہا گیا ہے کہ ان کو وحی ہوئی کہ خانہ کعبہ میں جاکر وضعِ حمل کریں، در حقیقت ایک بے لطف جھوٹ ہے، کیوں کہ اسلامی یا غیر اسلامی کسی بھی فرقہ کے نزدیک بھی وہ نبی نہیں تھیں ۔۔۔ الخ"

(تحفۂ اثنا عشریہ اردو، ص:165/ 166، ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100883

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں