بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح کس عمر میں ہوا اور کیا نابالغ کا نکاح درست ہوتا ہے؟


سوال

 حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کا نکاح چھ سال کی عمر میں ہوا اور رخصتی نو سال کی عمر میں ہوئی۔ کیا یہ بات درست ہے؟ نو سال کی عمر میں تو لڑکی بالغ ہی نہیں ہوتی تو پھر رخصتی کیسے ہوگئی؟ برائے مہربانی اس اشکال کو رفع فرما دیں۔

جواب

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کا نکاح چھ سال کی عمر میں ہوا اور  رخصتی نو سال کی عمر ہوئی ہے ۔کئی کتب احادیث میں خود حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے یہ بات منقول ہے ،من جملہ ان  احادیث کی کتابوں میں   بخاری ،مسلم ،سنن ابی داؤد اور سنن نسائی  ہیں ۔

چنانچہ صحیح البخاری میں ہے:

"حدثني فروة بن أبي المغراء، حدثنا علي بن مسهر، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: «تزوجني النبي صلى الله عليه وسلم وأنا بنت ست سنين، فقدمنا المدينة فنزلنا في بني الحارث بن خزرج، فوعكت فتمرق شعري، فوفى جميمة فأتتني أمي أم رومان، وإني لفي أرجوحة، ومعي صواحب لي، فصرخت بي فأتيتها، لاأدري ما تريد بي فأخذت بيدي حتى أوقفتني على باب الدار، وإني لأنهج حتى سكن بعض نفسي، ثم أخذت شيئاً من ماء فمسحت به وجهي ورأسي، ثم أدخلتني الدار، فإذا نسوة من الأنصار في البيت، فقلن على الخير والبركة، وعلى خير طائر، فأسلمتني إليهن، فأصلحن من شأني، فلم يرعني إلا رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى، فأسلمتني إليه، وأنا يومئذ بنت تسع سنين۔"

(کتاب النکاح ،باب تزویج الصغار اذا زوجہن آبائہن،ج:،ص:1451،ط:دار المغنی)

ترجمہ :

"  حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے  وہ فرماتی ہیں کہ میری عمر  چھ سال کی تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا نکاح ہوا، پھر ہم (ہجرت کرکے) مدینہ آئے تو بنی حارث بن خزرج (کے مکان) میں اترے، پھر مجھے (اتنا شدید) بخار آیا کہ میرے سر کے بال گرنے لگے اور وہ کانوں تک رہ گئے، پھر (ایک دن) میں اپنی چند سہیلیوں کے ساتھ جھولے میں بیٹھی تھی کہ میری والدہ ام رومان میرے پاس آئیں اور مجھے زور سے آواز دی، میں ان کے پاس چلی گئی اس حال میں کہ مجھے معلوم نہ تھا کہ انہوں نے کیوں بلایا ہے، انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر ایک مکان کے دروازہ پر کھڑا کردیا میرا سانس پھول رہا تھا حتیٰ کہ ذرا دم میں دم آیا، پھر انہوں نے تھوڑا پانی لے کر میرے منہ اور سر پر ہاتھ پھیر دیا، پھر مجھے مکان کے اندر داخل کردیا تو میں نے کمرہ میں چند انصاری عورتوں کو دیکھا، انہوں نے کہا خیر و برکت اور نیک فال کے ساتھ آؤ ۔میری والدہ نے مجھے ان کے حوالہ کردیا، پھر انہوں نے مجھے سنوارا (تیار کیا)، پھر  چاشت کے وقت آں حضرت تشریف لائے تو انہوں نے مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ کردیا اس وقت میری عمر نو سال کی تھی۔"

جہاں تک یہ اعتراض اور شبہ ہے کہ نو سال کی عمر میں لڑکی بالغ نہیں ہوتی تو پھر رخصتی کیسے ،تو جواب سے قبل یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ  آپ کے ذہن میں اٹھنے والا یہ  اعتراض نیا نہیں ،بلکہ پراناہے اور اسلام دشمن اس قسم کے اعتراضات کی ترویج و تشہیر کر تے ہیں ،تاکہ عام مسلمانوں کو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں  شکوک و شبہات میں مبتلا کیا جائے ۔

تو اس بارے میں پہلی بات تو یہ سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن ،حدیث میں یہ بات کہیں مذکور نہیں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نکاح کے وقت بالغ نہیں تھیں ،احادیث میں رخصتی کے وقت آپ رضی اللہ عنہا  کی عمر نو سال آئی ہے اور یہی عمر(نو سال)شریعت مطہرہ میں لڑکیوں کی بلوغت کی ابتدائی مدت ہے ،یعنی  اس عمر میں بھی بعض لڑکیاں بالغ ہوجاتی ہیں ،جیسا کہ آج کل کا بھی مشاہدہ ہے کہ بعض لڑکیاں نو سال کی عمر میں بالغ ہو جاتیں ہیں گو کہ اس کی مقدار کم ہے۔

دوم یہ کہ  قرآن ،حدیث اور   فقہ میں یہ شرط کہیں نہیں  ہے کہ رخصتی یا نکاح کے لیے لڑکی کا بالغ ہونا ضروری ہے ،بلکہ اللہ تعالی نے قرآن میں ان کی بھی عدت کو بیان کیا ہے جن کو اب تک  بوجہ کم عمری کے حیض ہی نہیں آیا ہے ۔اور عدت کا تعلق اس عورت یا بچی کے ساتھ ہے جس سےنکاح کے بعد  اس کا شوہر خلوتِ کر چکا ہو ،پس وہ عورت یا بچی جس سے اس کے شوہر نے خلوت ہی نہ کی ہو  اس کے لیے عدت کا حکم ہے ہی نہیں ۔

چناچہ قرآن میں اللہ کا ارشاد ہے :

"وَاڿ يَىِٕسْنَ مِنَ الْمَحِيْضِ مِنْ نِّسَاۗىِٕكُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلٰثَةُ اَشْهُرٍ ۙ وَّاڿ لَمْ يَحِضْنَ ۔"

ترجمہ:

"اور (تفصیل یہ کہ ) تمہاری (مطلقہ ) بیبیوں میں جو عورتیں (بوجہ زیادت سن کے ) حیض آنے سے مایوس ہوچکی ہیں اگر تم کو (ان کی عدّت کی تعیین میں ) شبہ ہو تو ان کی عدّت تین مہینے ہیں اور اسی طرح جن عورتوں کو (اب تک بوجہ کم عمری کے ) حیض نہیں آیا۔"(بیان القرآن)

پس اس آیت کے ذیل میں امام جصاص رحمہ اللہ  کے استنباطات  ملاحظہ ہوں  :

"فحكم بصحة طلاق الصغيرة التي لم تحض, والطلاق لا يقع إلا في نكاح صحيح, فتضمنت الآية جواز تزويج الصغيرة.ويدل عليه أن النبي صلى الله عليه وسلم تزوج عائشة وهي بنت ست سنين۔"

(سورہ آلِ عمران ،ج:،ص:69،ط:دار الکتب العلمیہ)

ترجمہ:

" (اس آیت ميں )اس  بچی جس کو  ابھی حیض نہ آیا ہو اس کی طلاق کی درستگی کا حکم  دیا گیا ہے  اور طلاق صرف نکاح صحیح  کے دوران ہوتی ہے، پس یہ آیت اس کو حکم کو بھی متضمن ہے کہ چھوٹی بچی کا نکاح کرانا درست ہے ،اور اس بات پر بھی دلالت کر رہی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا سے اس وقت شادی کی جب وہ چھ سال کی تھیں۔"

پس اگر لڑکی صحت مند ہو ،شوہر کے قابل ہو تو رخصتی میں شرعاً کوئی حرج نہیں اور اس کا تعین لڑکی کے ولی اور سرپرست جو کہ لڑکی کے انتہائی خیر خواہ اور ذمہ دار ہیں ان کا کام ہے ،دوسرے لوگوں کو اس پر اعتراض کرنا اور اس قسم کی باتوں کو موضوع سخن بنانے کا کوئی حق نہیں ہے۔

بالخصوص ایک مسلمان جو اپنے  نبی سے سچی محبت کا دعوی کرتا ہو ،امہات المومنین کو دل و جان سے اپنی روحانی ماں سمجھتا ہو ،اس کے لیے ہر گز زیب نہیں دیتا کہ اپنے روحانی ماں باپ کی اس نوعیت کی نجی زندگی پر لب کشائی کرکے اسلام دشمنوں کی ہرزہ سرائی کا حصہ دار بنے ۔

جہاں تک بخاری کی ذکر کردہ روایت کی سند کی تحقیق ہے تو الفاظ کی معمولی  تقدیم وتاخیر  کے ساتھ متعدد کتب حدیث میں وارد ہے،امام دارمی ؒ نے  اپنی سنن  میں(باب في تزویج الصغارإذا زوجهن آباؤهن،3/1451، دار المغنی للنشر والتوزیع)اور ابن ماجہ رحمہم اللہ نے اپنی کتاب میں  (باب نکاح الصغار یزوجهن الآباء،1/603،دار احیاء الکتب العربیة ) اسروایت کو "علي بن مسهر، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة" کی سند کے ساتھ  نقل کیا ہے۔

امام مسلم اور ابو داؤدرحمہ اللہ نے  اس روایت کو راوئ حدیث   "عليبن مسهر" کے متابع "أبو اُسامة" کے ساتھ بھی نقل کیا ہے۔( صحیح مسلم ،باب تزویج الأب البکر الصغیرة،2/103، دار احیاء التراث العربی وسننأبي داؤد ، باب في الأرجوحة، 7/293،دار الرسالة العالمیة)، جس کی نشاندہی امام نووی رحمہ اللہ نے بھی اپنی شرح میں فرمائی ہے۔ (شرح النووی کا صحیح مسلم، 9/207،دار احیاء التراث العربی)۔اسی طرح "مستخرج ابو عوانة " میں یہ روایت بطریق سفیان بن عیینہ منقول ہے۔ (باب الإباحة للأبأن یزوج الصغیر ،3/77،دار المعرفة)۔  اس کے علاوہ حافظ ابن حجر  رحمہ اللہ نے دیگر متابعات کی فہرست بھی پیش کی ہے ۔(إتحاف المهرة بالفوائد المبتكرة من أطراف العشرة،17/351،مجمع الملک فهد ومرکز خدمة السنةوسیرة النبویة بالمدینة)

            لہذا دریافت کردہ حدیث اسنادی حیثیت سے پایہ صحت کو پہنچتی  ہے،اور ا س  سند کے تمام راوی ثقہ ومتعمد ہیں۔

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144504101192

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں