بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد کی آپس میں شادیاں ہوئی تھی یا نہیں؟


سوال

1۔عورت کو  حضرت آدم کی پسلی سے پیدا کرنے کی کیا وجہ ہے؟

2۔اور حضرت آدم کے بیٹے اور بیٹی کی آپس میں شادی ہوئی   تھی  کہ نہیں؟

3۔اگر ہوئی   تھی  تو  شریعت میں  اس  کی اجازت  تونہیں تھی؟

جواب

1۔حدیث  شریف میں   ہے کہ عورت کو  پسلی سے پیداکیاگیا ہے،  اس لیے اس بارے میں محتاط رہو کہ کہیں  اس کی اصلاح کرتے ہوئے توڑ نہ ڈالو ،اور عورت کو  حضرت آدم علیٰ نبینا   وعلیہ الصلاۃ  والسلام   کی پسلی  سے پیداکرنے  سے  مراد یہ ہے کہ  عورتوں کی  عادت اور جبلت میں  ٹیڑھاپن ہوتاہے، اس  وجہ  سے ان  کی ہر ہر بات  پر  روک ٹوک مت کرو ؛ کہ   یہ اصلاح کے بجائے  فساد کا ذریعہ بنے گی۔

2،3۔  اللہ تعالی نے  حضرت آدم علیہ السلام کے لیے یہ   جائز  قرار دیا تھا کہ وہ اپنی اولاد میں سے بیٹی اور  بیٹے  کی آپس  میں شادی کردیں، اور یہ بات ان کی شریعت  میں  نسل انسانی چلانے  کے لیے جائز قراردی گئی تھی، لیکن ان کے ہاں  ہر بار  ایک بیٹا اور ایک بیٹی اکٹھے پیدا ہوتے تھے،  اس  طرح وہ   بچوں کی شادی ان بچوں کے ساتھ کرتے تھے  جو ان کے علاوہ دوسری بار میں  پیدا ہوئے ہوں، گویا ہر مرتبہ کے حمل سے پیدا شدہ لڑکا لڑکی باہم حقیقی بہن بھائی کی طرح تھے، اور ان کا باہم نکاح درست نہیں تھا، جب کہ دوسرے حمل سے پیدا شدہ پہلے والوں کے لیے اسی طرح تھے جیسے چچیرے ہوتے ہیں۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة عن النبي صلی الله عليه وسلم قال : من کان يؤمن بالله واليوم الآخر فلايؤذ جاره واستوصوا بالنساء خيرًا وأن أعوج شئ فی الضلع أعلاه فان ذهبت تقيمه کسرته و إن ترکته لم يزل أعوج، فاستوصوا بالنساء خيرًا."

(ج:5،ص:1987، رقم الحدیث:4890،ط:دارابن کثیر)

ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالی اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو اذیت نہ پہنچائے اور خواتین کے بارے میں بھلائی کی وصیت قبول کرو۔ انہیں پسلی سے پیدا کیا گیا ہے اور پسلی میں سب سے ٹیڑھا حصہ سب سے اوپر والا حصہ ہوتا ہے اگر تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو تم اسے توڑ دو گے اور اگر اس کے حال پر رہنے دو گے تو وہ ٹیڑھی رہے گی،  لہٰذا خواتین کے بارے میں بھلائی کی وصیت قبول کرو۔

لمعات التنقیح میں  ہے:

"وقوله: (‌فإنهن ‌خلقن ‌من ‌ضلع) بكسر وفتح وبفتحتين: عظم الجنب، وهو معوج، إشارة إلى خلق أول النساء، أعني حواء من الضلع الأعلى من أضلاع آدم عليهما السلام، والمقصد أن النساء في خلقهن اعوجاج في الأصل، فلا يستطيع أحد أن يغيرهن عما جبلن عليه."

(ج:6، ص:109، رقم الحدیث:3239، ط: دارالنوادر)

 عمدۃ القاری ہے:

"‌فإنهن ‌خلقن ‌من ‌ضلع، واستعير الضلع للعوج أي: خلقن خلقا فيه اعوجاج فكأنهن خلقن من أصل معوج فلا يتهيأ الانتفاع بهن إلا بمداراتهن والصبر على اعوجاجهن."

(ج:20، ص: 166، ط: داراحياء التراث العربي)

تفسیر ابن کثير میں ہے: 

"و كان من خبرهما فيما ذكره غير واحد من السلف و الخلف، أن الله تعالى قد شرع لآدم عليه السلام، أن يزوج بناته من بنيه لضرورة الحال، و لكن قالوا: كان يولد له في كل بطن ذكر و أنثى، فكان يزوج أنثى هذا البطن لذكر البطن الآخر، و كانت أخت هابيل دميمة، و أخت قابيل وضيئة، فأراد أن يستأثر بها على أخيه، فأبى آدم ذلك إلا أن يقربا قربانًا، فمن تقبل منه فهي له، فقربا فتقبل من هابيل و لم يتقبل من قابيل فكان من أمرهما ما قصّ الله في كتابه.
ذكر أقوال المفسرين هاهنا :
قال السدي - فيما ذكر - عن أبي مالك وعن أبي صالح عن ابن عباس - وعن مرة عن ابن مسعود - وعن ناس من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ; أنه كان لا يولد لآدم مولود إلا ولد معه جارية ، فكان يزوج غلام هذا البطن جارية هذا البطن الآخر ، ويزوج جارية هذا البطن غلام هذا البطن الآخر ، حتى ولد له ابنان يقال لهما : قابيل وهابيل وكان قابيل صاحب زرع ، وكان هابيل صاحب ضرع ، وكان قابيل أكبرهما ، وكان له أخت أحسن من أخت هابيل وإن هابيل طلب أن ينكح أخت قابيل فأبى عليه وقال : هي أختي ، ولدت معي ، وهي أحسن من أختك ، وأنا أحق أن أتزوج بها . فأمره أبوه أن يزوجها هابيل فأبى ، وأنهما قربا قربانا إلى الله عز وجل أيهما أحق بالجارية ، وكان آدم عليه السلام قد غاب عنهما ، أتى مكة ينظر إليها ، قال الله عز وجل : هل تعلم أن لي بيتا في الأرض ؟ قال : اللهم لا . قال : إن لي بيتا في مكة فأته . فقال آدم للسماء : احفظي ولدي بالأمانة ، فأبت . وقال للأرض ، فأبت . وقال للجبال ، فأبت . فقال لقابيل فقال : نعم ، تذهب وترجع وتجد أهلك كما يسرك . فلما انطلق آدم قربا قربانا ، وكان قابيل يفخر عليه ، فقال : أنا أحق بها منك ، هي أختي ، وأنا أكبر منك ، وأنا وصي والدي . فلما قربا ، قرب هابيل جذعة سمنة ، وقرب قابيل حزمة سنبل ، فوجد فيها سنبلة عظيمة ، ففركها فأكلها . فنزلت النار فأكلت قربان هابيل وتركت قربان قابيل فغضب وقال : لأقتلنك حتى لا تنكح أختي . فقال هابيل : إنما يتقبل الله من المتقين . رواه ابن جرير .
وقال ابن أبي حاتم : حدثنا الحسن بن محمد بن الصباح حدثنا حجاج عن ابن جريج أخبرني ابن خثيم قال : أقبلت مع سعيد بن جبير فحدثني عن ابن عباس قال : نهي أن تنكح المرأة أخاها توأمها ، وأمر أن ينكحها غيره من إخوتها ، وكان يولد له في كل بطن رجل وامرأة ، فبينما هم كذلك ولد له امرأة وضيئة ، وولد له أخرى قبيحة دميمة ، فقال أخو الدميمة : أنكحني أختك وأنكحك أختي . قال : لا ، أنا أحق بأختي ، فقربا قربانا ، فتقبل من صاحب الكبش ، ولم يتقبل من صاحب الزرع ، فقتله . إسناد جيد."

 (تفسير القرآن العظيم، سورة المائدة، رقم الآية: ٢٧)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144503100577

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں