بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت حوا کیسے پیدا ہوئی؟


سوال

حضرت حوا کیسے پیدا ہوئی اور کیا ان کے پیدا ہونے کا ذکر قرآن میں ہے؟

جواب

واضح رہے کہ مشہور قول کے مطابق حضرت حواء کی پیدائش حضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے ہوئی اور ایک قول کے مطابق حضرت حواء کی پیدائش حضرت آدم علیہ السلام کے باقی ماندہ مٹی سے  ہوئی ہے، اس کا اجمالی تذکرہ قرآن مجید میں بھی ہے، ارشاد باری تعالی ہے:"يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ ٱتَّقُواْ رَبَّكُمُ ٱلَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفۡسٖ وَٰحِدَةٖ وَخَلَقَ ‌مِنۡهَا ‌زَوۡجَهَا وَبَثَّ مِنۡهُمَا رِجَالٗا كَثِيرٗا وَنِسَآءٗۚ  [النساء: 1] ، پیدائش کی کیفیت  کی تفصیل  احادیث مبارکہ میں بیان ہوئی ہے۔

تفسیر روح المعانی میں ہے:

"‌وَخَلَقَ ‌مِنْها ‌زَوْجَها ‌وهو عطف على خَلَقَكُمْ داخل معه في حيز الصلة، وأعيد الفعل لإظهار ما بين الخلقين من التفاوت لأن الأول بطريق التفريع من الأصل، والثاني بطريق الإنشاء من المادة فإن المراد من الزوج حواء وهي قد خلقت من ضلع آدم عليه السلام والأيسر (2) كما روي ذلك عن ابن عمر وغيره،وروى الشيخان «استوصوا بالنساء خيرا فإنھن خلقن من ضلع وإن أعوج شيء من الضلع أعلاه فإن ذهبت تقيمه كسرته وإن تركته لم يزل أعوج»وأنكر أبو مسلم خلقها من الضلع لأنه سبحانه قادر على خلقها من التراب فأي فائدة في خلقها من ذلك، وزعم أن معنى منها من جنسها والآية على حد قوله تعالى:جَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْواجاً[النحل: 72] ووافقه على ذلك بعضهم مدعيا أن القول بما ذكر يجر إلى القول بأن آدم عليه السلام كان ينكح بعضه بعضا، وفيه من الاستھجان ما لا يخفى وفي الھامش: وقیل إنها خلقت من فضل طینه ونسب للباقر."

(سورۃ النساء،ج:2،ص:392،ط:دارالکتب العلمیہ)

تفسیر جلالین میں ہے:

"{وزوجك} حواء بالمد وكان خلقها من ضلعه الأيسر."

(سورۃ البقرہ،ص:9،ط:دارالحدیث) 

 صحیح بخاری میں ہے:

"عن ‌أبي هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم «استوصوا بالنساء فإن المرأة خلقت من ضلع وإن ‌أعوج ‌شيء في الضلع أعلاه فإن ذهبت تقيمه كسرته وإن تركته لم يزل أعوج فاستوصوا بالنساء.»."

 (‌‌باب خلق آدم صلوات الله عليه وذريته4/ 133 ط السلطانية)

صحیح مسلم میں  ہے:

"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من كان يؤمن بالله واليوم الآخر، فإذا شهد أمرا فليتكلم بخير أو ليسكت، واستوصوا بالنساء، فإن المرأة خلقت ‌من ‌ضلع، ‌وإن ‌أعوج ‌شيء في الضلع أعلاه، إن ذهبت تقيمه كسرته، وإن تركته لم يزل أعوج، استوصوا بالنساء خيرا."

(كتاب الرضاع،باب الوصية بالنساء،ج:2،ص:1090،ط:داراحیاءالتراث)

فتح الباری میں ہے:

"قال الطيبي قوله خلقت من ضلع بكسر المعجمة وفتح اللام ويجوز تسكينها قيل فيه إشارة إلى أن حواء خلقت من ضلع آدم ‌الأيسر وقيل من ضلعه القصير أخرجه بن إسحاق وزاد اليسرى من قبل أن يدخل الجنة وجعل مكانه لحم ومعنى خلقت أي أخرجت كما تخرج النخلة من النواة وقال القرطبي يحتمل أن يكون معناه أن المرأة خلقت من مبلغ ضلع فهي كالضلع زاد في رواية الأعرج عن أبي هريرة عند مسلم لن تستقيم لك على طريقة قوله وإن أعوج شيء في الضلع أعلاه قيل فيه إشارة إلى أن أعوج ما في المرأة لسانها وفي استعمال أعوج استعمال لأفعل في العيوب وهو شاذ وفائدة هذه المقدمة أن المرأة خلقت من ضلع أعوج فلا ينكر اعوجاجها أو الإشارة إلى أنها لا تقبل التقويم كما أن الضلع لا يقبله قوله فإن ذهبت تقيمه كسرته قيل هو ضرب مثل للطلاق أي إن أردت منها أن تترك اعوجاجها أفضى الأمر إلى فراقها ويؤيده قوله في رواية الأعرج عن أبي هريرة عند مسلم وإن ذهبت تقيمها كسرتها وكسرها طلاقها ويستفاد من حديث الباب أن الضلع مذكر خلافا لمن جزم بأنه مؤنث واحتج برواية مسلم ولا حجة فيه لأن التأنيث في روايته للمرأة وقيل إن الضلع يذكر ويؤنث وعلى هذا فاللفظان صحيحان الحديث السابع حديث عبد الله وهو بن مسعود يجمع خلق أحدكم في بطن أمه الحديث بتمامه وسيأتي شرحه في كتاب القدر مستوفى إن شاء الله تعالى ومناسبته للترجمة من قوله فيها ذريته فإن فيه بيان خلق ذرية آدم الحديث الثامن حديث أنس في ذلك وسيأتي أيضا هناك الحديث التاسع."

(قوله باب خلق آدم وذريته،ج:6،ص:368،ط:دارالمعارفه)

تفسیر ہدایت  القرآن میں ہے:

" پہلی خاتون دادی حواءرضی اللہ عنہا کی تخلیق کس طرح ہوئی؟ اس مسئلہ کے تعلق سے بھی احادیث میں کچھ نہیں اور قرآن کریم کی تعبیر ذومعنی ہے اس لئے قطعی طور پر کوئی بات نہیں کہی جاسکتی۔ البتہ یہ بات قطعی ہے کہ انسان دیگر حیوانات کی طرح مٹی سے پید اکیا گیا ہے، کوئی بلا واسطہ اور کوئی بالواسطہ ،حضر ت آدم علیہ السلام بلا واسطہ مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں، ان کی تخلیق کے سلسلہ میں قرآن کریم میں یہ تعبیریں آئی ہیں:1 ( مِّنْ طِیْنٍ لَّازِبٍ ) چپکتی مٹی سے 2 (مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ ) سڑے ہوئے گارے سے 3(مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ ) ٹھیکری کی طرح بجتی مٹی سے، ان مختلف تعبیرات کو ملا کر بھی کوئی واضح صورت سمجھ میں نہیں آتی۔

اور دادی کے تعلق سے عام خیال یہ ہے کہ یہ ارشاد ہے: ﴿ خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا)۔تمام انسانوں کو ایک نفس سے پیدا کیا، اور اس نفس سے اس کا جوڑا پیدا کیا۔

اس آیت میں نفس کا کیا ترجمہ ہے؟ انفس متعدد معانی کے لئے آتا ہے، روح جسم، جی وغیرہ اس کا ترجمہ کیا جاتا ہے،اور عارف شیرازی رحمہ اللہ نے اس کا ترجمہ جو ہر کیا ہے، فرماتے ہیں:بنی آدم اعضائے یک دیگر اند که در آفرینش ز یک جوهر اند

پس اس کا ترجمہ ماہیت بھی کیا جاسکتا ہے اور ترجمہ نہ کریں تو نفس ناطقہ مراد لے سکتے ہیں ، یہ انسان کی کلی طبعی ہے، اس کا وجود عالم اجساد میں اس کے افراد کے ضمن میں ہوتا ہے مستقل وجود نہیں ہوتا مگر عالم مثال میں اس کا مستقل وجود ہے، اس کو شاید صوفیاء" انسان اکبر" کہتے ہیں۔

اسی طرح زوج کے بھی دوتر جمے ہیں :بیوی اور جوڑا۔ جوڑا: وہ دو چیزیں جومل کرکسی مقصد کی تکمیل کرتی ہیں، جیسے آسمان وزمین جوڑا ہیں، آسمان برستا ہے اور زمین اُگاتی ہے، اس طرح حیوانات کی معیشت کا اللہ تعالیٰ انتظام کرتے ہیں، اسی طرح شب و روز جوڑ اہیں، کرتا پاجامہ جوڑا ہیں، دو جوتے جوڑ اہیں اور نر و مادہ بھی جوڑا ہیں ، دونوں سے نسل پھیلتی ہے۔

اب سورة النساء کی پہلی آیت کے دو مطلب نکلیں گے: 1۔ تمام انسانوں کو ایک نفس سے یعنی آدم علیہ السلام سے پیدا کیا، اور اسی نفس سے یعنی آدم علیہ السلام سے ان کی بیوی (دادی حواء) کو پیدا کیا، یہی مطلب عام طور پر لیا جاتا ہے۔

2- تمام انسانوں کونفس ناطقہ سے پیدا کیا، پھر اس کی دو صفیں بنائیں اور اس جوڑے سے بے شمار مردوزن پیدا کئے، اب آیت کا آدم وحوا علیہما السلام سے کچھ تعلق نہ ہوگا، تمام انسانوں سے آیت کا تعلق ہوگا۔

اور روح المعانی میں سورۃ النساء کی پہلی آیت کے حاشیہ میں خود مفسر کا منہیہ ہے، حضرت ابو جعفرمحمد باقر رحمہ اللہ جو حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے شاگرد اور جلیل القدر تابعی ہیں، ان کی طرف منسوب کر کے یہ قول لکھا ہے إنها خلقت من فضل طینته: دادی حواءکو  اس مٹی سے پیدا کی گئیں جو آدم علیہ السلام کی تخلیق کے لئے تیار کی ہوئی مٹی سے بچی تھی، اس باقی  ماندہ سے دادی کا پتلا بنایا گیا، پھر اس میں روح پھونکی گئی۔

البتہ بائبل کی کتاب پیدائش میں ہے کہ آدم علیہ السلام جنت میں اکیلے پریشان رہتے تھے، ایک مرتبہ وہ سوئے ہوئے تھے اللہ پاک کبوتر کی شکل آئے (پناہ بخدا!) اور ان کی بائیں پسلی سے ایک جزء کاٹ کر لے گئے، اور دادی کو بنا کر بھیج دیا، ان سے دادا کو سکون حاصل ہوا یہی بات روایات کے راستے تفسیروں میں  آئی ، اور آیات کی عام تفسیر یہی کی جانے لگی۔"

(سورۃالنساء،ج:1،ص:553۔ط:حجاز دیوبند)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406101508

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں