بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خضر علیہ السلام نبی ہیں یا ولی؟ بقید حیات ہیں یا نہیں؟


سوال

کیا حضرت خضر علیہ  السلام  زندہ  ہیں؟ اور کیا وہ نبی تھے یا  ولی تھے؟

جواب

جمہور علماءِ امت کے نزدیک حضرت خضر علیہ السلام نبی تھے،  البتہ ان کو کچھ تکوینی خدمتیں بھی من جانب اللہ  سپرد  کی گئی تھیں؛ کیوں کہ ان کاحضرت موسی علیہ السلام کے  ساتھ جو واقعہ قرآن پاک میں ہے اس میں ان کے بعض ایسے افعال کا تذکرہ ہے جو قطعی طور پر ظاہرِ شریعت کے خلاف ہیں اور شریعت کے خلاف کام کرنے کا استثناء  صرف وحی الہی کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے جو  انبیاء کے ساتھ مخصوص ہے۔

 محدثین کی ایک جماعت حضرت خضر علیہ السلام کی  اس وقت دنیاوی حیات کا انکار کرتی ہے،  جب کہ جمہور علماء و صلحاء  حضرت خضر علیہ السلام کی  حیات  کے  قائل  ہیں۔

تاہم حضرت خضر علیہ السلام  کی حیات اور  موت سے  ہمارا کوئی اعتقادی یا علمی مسئلہ متعلق نہیں ہے اور نہ ہی کسی ایک جانب کا یقین رکھنا ہمارے لیے ضروری ہے،  اس لیے کہ قرآن و حدیث میں اس کے متعلق کوئی صراحت نہیں ملتی اور یہی وجہ ہے کہ علماءِ امت میں اس بارے میں اختلاف ہے، اس لیے اس میں زیادہ بحث و مباحثہ اور تحقیق و تمحیص کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔

فتاوٰی محمودیہ میں ہے:

”جمہور علماء کا مذہب یہ ہے کہ خضر علیہ الصلاة والسلام زندہ ہیں، ہاں بعض اس کے قائل ہیں کہ انتقال کر چکے ہیں۔

محدثین کرام عموماً حضرت حضر علیہ الصلاة والسلام کی حیات کے قائل نہیں ، صوفیائے عظام قائل ہیں۔“

(مایتعلق بالأنبیاء وأتباعہم: ج:1، ص: 442-445، ط: ادار ہ الفاروق)

امداد الفتاوٰی میں ہے:

”حضرت خواجہ حضر علیہ السلام کا زندہ رہنا جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تک ثابت ہے، چنانچہ بعد وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے پاس تشریف لائے اور تعزیت فرمائی اور حضر ت ابوبکر صدیق و حضرت علی رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ یہ حضرت خضر علیہ السلام تھے۔

اور اب تک زندہ ہونے پر تمام اہلِ باطن و صلحاء کا اتفاق ہے اور ہمیشہ ایسے لوگوں سے ملاقات کرتے رہے اور کرتے ہیں، مولانا نظامیؒ فرماتے ہیں ”مرا خضر تعلیم گر بوددوش“اور اکثر بزرگوں سے حکایات بمنزلۂ متواتر ان کی زندگی کے منقول و مشہور ہیں۔ فقط واللہ تعالی اعلم“

(مسائل شتّی: ج: 4، ص: 541-542، ط: مکتبہ دار العلوم کراچی)

خیر الفتاوٰی میں ہے:

”جمہور علماء سلف کے نزدیک حضرت خضر علیہ السلام نبی تھے اور ان کی شریعت کا زیادہ تعلق حقائق باطنہ شرعیہ سے تھا، حضرت موسی علیہ السلام علی ہٰذا اکثر انبیاء علیہم السلام کی شرائع کا تعلق احکام ظاہر سے تھا، حضرت خضر علیہ السلام کے وہ افعال بھی من عند اللہ شریعت تھی اور وہی منزل تھی، اسی واسطے جب حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا :"وما فعلته عن أمري" تو موسی علیہ السلام نے انکار نہیں فرمایا۔“

(مایتعلق بالأنبیاء والصلحاء: ج: 1، ص: 325، مکتبہ امدادیہ )

عمدة القاری للعینیؒ میں ہے:

"والصحيح أنه نبي، وجزم به جماعة. وقال الثعلبي: هو نبي على جميع الأقوال معمر محجوب عن الأبصار، وصححه ابن الجوزي أيضا في كتابه، لقوله تعالى حكاية عنه: {وما فعلته عن امري} (الكهف: 82) فدل على أنه نبي أوحي إليه، ولأنه كان أعلم من موسى في علم مخصوص، ويبعد أن يكون ولي أعلم من نبي وإن كان يحتمل أن يكون أوحي إلى نبي في ذلك العصر يأمر الخضر بذلك، ولأنه أقدم على قتل ذلك الغلام، وما ذلك إلا للوحي إليه في ذلك. لأن الولي لا يجوز له الإقدام على قتل النفس بمجرد ما يلقى في خلده، لأن خاطره ليس بواجب العصمة. السادس: في حياته: فالجمهور على أنه باق إلى يوم القيامة."

(باب ما ذكر في ذهاب موسى صلى الله عليه في البحر إلى الخضر:ج:2، ص: 60، ط: دار تراث إحیاء العربي)

فتح الباری لابن حجرؒ میں ہے:

"و قال بن الصلاح هو حي عند جمهور العلماء والعامة معهم في ذلك وإنما شذ بإنكاره بعض المحدثين وتبعه النووي وزاد أن ذلك متفق عليه بين الصوفية وأهل الصلاح وحكاياتهم في رؤيته والاجتماع به أكثر من أن تحصر انتهى."

(قوله باب حديث الخضر مع موسى عليهما السلام : ج:6، ص:439، ط: دار المعرفة)

تفسير ابن كثيرؒمیں ہے:

"وذكروا في ذلك -أي القائلون بحياته- حكايات وآثاراً عن السلف وغيرهم، وجاء ذكره في بعض الأحاديث ولا يصح شيء من ذلك.. وأشهرها حديث التعزية وإسناده ضعيف. ورجح آخرون من المحدثين وغيرهم خلاف ذلك واحتجوا بقوله تعالى: وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ [الأنبياء:34]. وبقول النبي صلى الله عليه وسلم يوم بدر: اللهم إن تهلك هذه العصابة لا تعبد في الأرض. وبأنه لم ينقل أنه جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا حضر عنده ولا قاتل معه، ولو كان حيا لكان من أتباع النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه، لأنه عليه السلام كان مبعوثاً إلى جميع الثقلين: الجن والإنس، وقد قال: لو كان موسى وعيسى حيين لما وسعهما إلا اتباعي. وأخبر قبل موته بقليل أنه لايبقى من هو على وجه الأرض إلى مائة سنة من ليلته تلك عين تطرف.. إلى غير ذلك من الدلائل. انتهى".

(سورة الکهف: ج:5، ص:287، ط: دار طیبة)

البداية والنهاية لابن كثيرؒمیں ہے:

"وقد قدمنا قول من ذكر أن إلياس والخضر يجتمعان في كل عام من شهر رمضان ببيت المقدس وأنهما يحجان كل سنة ويشربان من زمزم شربة تكفيهما إلى مثلها من العام المقبل، وأوردنا الحديث الذي فيه أنهما يجتمعان بعرفات كل سنة، وبينا أنه لم يصح شيء من ذلك، وأن الذي يقوم عليه الدليل أن الخضر مات، وكذلك إلياس عليهما السلام. انتهى".

(ذكر قصتي الخضر والياس عليهما السلام: ج:1، ص:379، ط: دار إحیاء تراث العربي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408101785

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں