بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ذبحِ ولد کے حکم کی علت اور قربانی کا قبولیت کی علامت پہلے آگ جلانا تھی، اس کے تبدیل ہونے کی وجہ


سوال

1.اللہ تعالیٰ  نے ابرہیم  علیہ السلام کو اپنا بیٹا ذبح کرنے کو کیوں کہا؟ حالاں کہ اللہ تعالیٰ تو سب کچھ جانتے ہیں ۔

2.پرانے وقتوں میں قر بانی آسمان سے آگ اٹھا کر لے جاتی تھی ،اب کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کوخون اور گوشت نہیں پہنچتا، تو کیا پہلے پهنچتا  تھا؟ اب کیوں اس کی ضرورت نہیں رہی؟

 

جواب

1: اللہ  تعالیٰ کے  احکامات  میں حکمتیں پوشیدہ ہوتی ہیں، اللہ تعالیٰ کو   ماکان اور   مایکون (جوہوچکا اور جو ہوگا)سب کا علم ہے، لیکن بسااوقات دوسرے لوگوں کو مطلع فرمانے اور ان کے لیے سبق وتعلیم  کی حکمت کے تحت ایسے امور کو ظاہر فرماتے ہیں اور امتحانات میں مبتلا فرماتے  ہیں؛  تاکہ عام لوگوں کے سامنے انبیاء  اور مخلصین  کی تابع داری ،فرماں  برادی  اور   اطاعت  و  تسلیم  ظاہر  ہو۔

انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات پر آنے والی آزمائشیں اور امتحانات اسی قبیل کے ہوتے  ہیں؛  تاکہ ان کی حیثیت  ومقام دوسروں کے سامنے  ظاہرہو، نیز ان امتحانات کے ذریعے ان کے درجات و مقامات مزید بلند ہوجاتے ہیں ، جیساکہ سورہ بقرہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے امتحانات کے بعد ان پر کیے گئے انعامات کا ذکر فرمایا ہے، ذبح ولد  (بیٹا ذبح کرنے کے حکم)کا امتحان  بھی اسی قبیل  سے ہے ۔

تفسير البغوي - (1 / 145):

"ومعنى الابتلاء الاختبار والامتحان والأمر، وابتلاء الله العباد ليس ليعلم أحوالهم بالابتلاء، لأنه عالم بهم، ولكن ليعلم العباد أحوالهم حتى يعرف بعضهم بعضا".

تفسير السمعاني - (1 / 134):

"قوله تعالى : ( وإذ ابتلى إبراهيم ربه ) أي : اختبر ، ومعنى ابتلاء العباد ، ليس ليعلم أحوالهم بالابتلاء لأنه عالم بهم وبما يملكون منهم ولكن ليعلم العباد أحوالهم ، حتى يعرف بعضهم بعضا."

حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ،  معارف القرآن (البقرہ:124) کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

"پہلی بات کہ امتحان کا مقصد کیا تھا ؟ قرآن کے ایک لفظ "ربُّه" نے اس کو حل کردیا،  جس میں یہ بتلایا گیا ہے کہ اس امتحان کے ممتحن خود اللہ جل شانہ ہیں اور ان کے اسماء حسنی میں سے اس جگہ لفظ "رب"  لاکر شان ِربوبیت کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے ، جس کے معنی ہیں کسی چیز کو آہستہ آہستہ درجہ کمال تک پہنچانا۔

مطلب یہ ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ ابتلاء وامتحان کسی جرم کی پاداش میں یا نامعلوم قابلیت کا علم حاصل کرنے کے ليے   نہیں،  بلکہ شان تربیت و ربوبیت اس کا منشاء ہے،  ان آزمائشوں کے ذریعے اپنے خلیل علیہ السلام کی تربیت کرکے ان کے درجات ومقامات تک پہنچانا مقصود ہے،  پھر اس جملہ میں  مفعول کو مقدم اور فاعل کو مؤ خر کرکے یوں ارشاد ہوا: "وَاِذِ ابْتَلٰٓى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ" اس میں ابراہیم علیہ السلام کی جلالت شان کو اور نمایاں فرمایا گیا."

2 : اللہ تعالیٰ خالق اور مالک ہیں،  وہ جس طرح چاہیں اپنے بندوں کو احکامات کی تعمیل کا پابند بنائیں، مختلف انبیاء کی شریعتوں میں شرعی احکامات میں کچھ تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں، ان ہی احکامات میں سے ایک حکم سابقہ شرائع میں   یہ تھا کہ قربانی   کسی اونچی  جگہ رکھ دی جاتی اور آسمانی آگ آکر اسے جلاڈالتی ،یہی قبولیت کی علامت تھی، اس وقت بھی رب العالمین کو بندوں کی قربانی کے گوشت یا خون کی حاجت نہیں تھی اور نہ ہی اب  ہے، پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا کہ گوشت آسمان پر اُٹھالیا جائے اور اسے استعمال کرنے کا سوال پیدا ہو، بلکہ اس وقت بھی اسے آگ جلا دیتی تھی۔ اور  اب بھی  اللہ رب العزت کو جانور کے گوشت اور خون کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ پچھلوں اور اگلوں سے سب کے اعمال میں اخلاص و اتباع مقصود ہے، یہی جذبہ خدا تعالیٰ تک پہنچتا ہے۔ البتہ اس امت کے لیے یہ خصوصی انعام اور فضل فرمایا گیا کہ اس امت کو قربانی کرکے یوں پیش کرنے کا حکم نہیں دیا،  بلکہ کھانے کی اجازت دی گئی ، یہ اس امت کی خصوصیات میں سے ہے، اور اصل مطلوب اخلاص اور  دلی جذبہ ہے ،یہ اللہ کے ہاں قبول ہوتا ہے جس کا ذکر سورہ حج میں  کیا گیا ہے۔

معارف القرآن (سورہ مائدہ :27)میں ہے :

" اس زمانہ میں قربانی قبول ہونے  کی ایک واضح اور کھلی ہوئی علامت یہ تھی کہ آسمان سے ایک آگ آتی اور قربانی کو کھا جاتی  تھی، اور جس قربانی کو آگ نہ کھائے تو یہ علامت اس کے نامقبول ہونے کی ہوتی تھی۔ 

اب صورت یہ پیش آئی کہ ہابیل کے پاس بھیڑ بکریاں تھیں، اس نے ایک عمدہ دنبہ کی قربانی کی ، قابیل کاشتکار آدمی تھا، اس نے  کچھ غلہ، گندم وغیرہ قربانی کے لیے  پیش کیا، اور ہوا یہ کہ حسب ِ دستور آسمان سے آگ آئی ، ہابیل کی قربانی کو کھا گئی، اور قابیل کی قربانی جوں کی توں پڑی رہ گئی، اس پر قابیل کو اپنی ناکامی کے ساتھ رسوائی کا غم و غصہ اور بڑھ گیا، تو اس سے رہا نہ گیا، اور کھلے طور پر اپنے بھائی سے کہہ دیا میں تجھے قتل کر ڈالوں گا۔ "

تفسير ابن كثير / دار طيبة - (3 / 82):

" وقرب قابيل حَزْمَة سنبل، فوجد فيها سنبلة عظيمة، ففركها فأكلها. فنزلت النار فأكلت قربان هابيل، وتركت قربان قابيل، فغضب وقال: لأقتلنك حتى لا تنكح أختي. فقال هابيل: إنما يتقبل الله من المتقين." 

(جواہر الفقہ 6/249،مکتبہ دارالعلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144212201804

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں