میری ڈیکوریشن کی دکان ہے، میں بازار سے دس روپے کی گڈی جس میں ایک ہزار روپے ہوتے ہیں گیارہ سو روپے کی لے کے آتا ہوں، اور اس کا ہار بنا کے بیچتا ہوں، کیا یہ میرے لیے جائز ہے؟
واضح رہے کہ روپے کے بدلے میں روپے کی خرید و فروخت پر کمی بیشی کرنا شرعاً سود ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے؛ لہذا آپ کے لیے اس طرح لین دین ( ہزار روپے کی گڈی گیارہ سو میں خریدنے) کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔ البتہ اس معاملہ میں جواز کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ مثلاً : دس کے نوٹوں کی ہزار روپے کی گڈی بیچنے والا 98 یا 99 یا 100 نوٹ اور اس کے ساتھ کوئی چیز (خواہ معمولی قیمت کی ہو) ساتھ بیچے اور خریدار گیارہ سو میں خریدے تو ایسی صورت میں وہ زائد رقم اس دوسری چیز کے بدلہ میں ہوجائے گی۔
باقی آپ کا نوٹوں کے ہار میں مزید کچھ چیزوں کا اضافہ کرکے اس میں لگے نوٹوں سے زیادہ قیمت میں بیچنا جائز ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(هو) لغة الزيادة. وشرعا (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنسا بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) أي التساوي وزنا (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق) وهو شرط بقائه صحيحا على الصحيح (إن اتحد جنسا وإن) وصلية (اختلفا جودة وصياغة) لما مر في الربا."
(كتاب البيوع، باب الصرف، ج: 5، ص: 258،257، ط: دار الفكر)
تبیین الحقائق میں ہے:
"قال رحمه الله (هو بيع بعض الأثمان ببعض) كالذهب، والفضة إذا بيع أحدهما بالآخر، أو بجنسه... قال رحمه الله (فلو تجانسا شرط التماثل، والتقابض، وإن اختلفا جودة وصياغة، وإلا شرط التقابض) يعني إذا بيع جنس الأثمان بجنسه كالذهب بالذهب، أو الفضة بالفضة يشترط فيه التساوي، والتقابض قبل الافتراق. ولا يجوز التفاضل فيه، وإن اختلفا في الجودة، والصياغة."
(كتاب الصرف، ج: 4، ص: 135،134، ط: دار الكتاب الإسلامي)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144604101449
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن