بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حیان، ابو حیان نام کا معنی اور نام رکھنے کا حکم


سوال

حَیّٰانْ نام کے معنی۔نیز صرفی لغوی تحقیق، اور ابوحیان نام رکھنے کی صورت میں کیا معنی ہوں گے؟

جواب

”حَیّان“ یہ (حيي) سے ہے، فعلان کے وزن پر صفت کا صیغہ ہے،  یہ اصل میں (حَيَيَان) تھا، ایک کلمہ میں ایک جیسے دو متحرک حرف ایک ساتھ آئے، تو پہلے کو ساکن کرکے دونوں کا آپس میں ادغام کردیا، تو  "حَیّان" بن گیا، اس کے معنی : زندہ کے ہیں۔

 متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا  نام ”حیّان“تھا،  اس لیے یہ  نام رکھنا جائز ہے۔

”ابو“  کا لفظ عام طور پر کنیت کے لیے ساتھ لگایا جاتا ہے،  ابو حیان کے معنی : حیان کے والد بھی ہوسکتے ہیں اور زندگی والا بھی ہوسکتا ہے۔ اور ”ابو حیان“ نام بھی رکھا جاسکتا ہے۔  

الأصول في النحو (3 / 360):

"وقالَ الخليلُ: أَقولُ في مثلَ "فَعَلانَ" مِنْ حَيِيتُ: حَيَّانُ، وتسكنُ وتدغمُ إنْ شئتَ"

الكتاب لسيبويه (4 / 409):

"وتقول في فعلانٍ من قويت قوانٌ. وكذلك فعلانٌ من حييت حيانٌ، تدغم لأنك تدغم فعلانٍ من رددت. وقد قويت الواو الآخرة كقوتها في نزوانٍ، فصارت بمنزلة غير المعتل."

تاج العروس (37 / 510):

"  {والحَيَوانُ، مُحرَّكةً: جِنْسُ الحَيِّ، أَصْلُه} حَيَيانٌ) ، فقُلِبَتِ الياءُ الَّتِي هِيَ لامٌ واواً اسْتِكْراهاً لتَوالِي الياءَيْن لتَخْتلفَ الحَرَكاتُ؛ هَذَا مَذْهَبُ الخَلِيلِ وسِيْبَوَيْه؛ وذَهَبَ أَبو عُثمان إِلَى أنَّ الحَيوانَ غيْرُ مُبْدلِ الواوِ وأنَّ الواوَ فِيهِ أَصْلٌ وَإِن لم يكنْ مِنْهُ فعل، وَشبه هَذَا بقَوْلِهم فَاظَ المَيِّتَ يَفِيظُ فَيْظاً وفَوْظاً، وَإِن لم يَسْتَعْمِلُوا من فَوْظٍ فِعْلاً، كَذلِكَ الحَيَوانُ عنْدَهُ مَصْدَر لم يُشْتَقّ مِنْهُ فِعْل".

الإصابة في تمييز الصحابة (2 / 125):

حيان بن أبجر الكناني: قال الطبري: يقال له صحبة.۔۔۔۔۔۔۔۔

1889- حيان بن بح ۔۔۔۔

1890- حيان بن قيس ۔۔۔۔ قيل: هو اسم النابغة الجعدي.

1891- حيان بن كرز البلوي:شهد فتح مصر، وله صحبة، قاله ابن يونس. ۔۔۔ الخ

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205201398

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں