بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حائضہ عورت کے حالت سفر میں نماز میں قصر اور اتمام کا حکم


سوال

اگر کوئی عورت عمرہ کے لیے کراچی سے حالت حیض میں روانہ ہوجائے ،مکہ پہنچ کر پاک ہوجائے ، اور مکہ میں پندرہ دن سے کم قیام کرنے کی نیت ہواس صورت میں یہ عورت نماز میں میں قصر کرے گی یا اتمام؟اور اگر مذکورہ عورت پاکی کی حالت میں مکہ سے مدینہ چلی جائے اور وہاں پر قیام پندرہ دن سے کم کا ہو تو اس صورت میں نماز میں قصر یا اتمام کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ عورت حیض کی حالت میں مسافر نہیں بنتی ، البتہ حیض سے پاک ہونے کے بعد اگر سفر کی مسافت سوا ستتر کلو میٹر یا اس سے زیادہ باقی ہے تو مسافر بنے گی اور قصر کرے گی ، اور اگر  پاک ہونے کے بعد سفر کی مسافت سوا ستتر کلو میٹر سے کم ہے تو وہ مسافر نہیں بنے گی اور پوری نماز پڑھے گی۔

لہذا صورت مسئولہ میں عورت عمرہ کے لیے کراچی سے جاتےہوئے ناپاک تھی ، مکہ پہنچ کر پاک ہوگئی تو  یہ عورت مکہ میں پوری نماز پڑھی گی، اگر چہ  اس کی  وہاں قیام کی نیت  پندرہ دن سے کم کی ہو،البتہ اگریہ عورت مکہ سے مدینہ منورہ چلی جائے ،اور  وہا ں قیام کی نیت پندرہ دن سے کم کی ہو، تو انفرادی طور پر نماز پڑھنے کی صورت میں قصر کرے گی (یعنی مسافر والی نماز پڑھے گی)،اور اگر مسجد نبوی کے امام کے پیچھے نماز پڑھے گی تو پوری نماز پڑھے گی، اسی طرح اگر وہاں پر قیام کی نیت پندرہ دن سے زیادہ کی ہوتو پھر وہاں قصر نہیں کرے گی بلکہ پوری نمار پڑھے گی۔

 حلبی کبیر میں ہے:

"والحائض اذا طهرت و قد بقي بينها و بين مقصدها اقل من ثلاثة ايام تتم الصلاة، هو الصحيح."

(فصل في صلاة المسافر، ص:542، ط: سهيل اكيدمي)

فتاوی شامی میں ہے:

"طهرت الحائض وبقي لمقصدها يومان تتم في الصحيح كصبي بلغ بخلاف كافر أسلم.

(قوله: تتم في الصحيح) كذا في الظهيرية. قال ط وكأنه لسقوط الصلاة عنها فيما مضى لم يعتبر حكم السفر فيه فلما تأهلت للأداء اعتبر من وقته. (قوله: كصبي بلغ) أي في أثناء الطريق وقد بقي لمقصده أقل من ثلاثة أيام فإنه يتم ولا يعتبر ما مضى لعدم تكليفه فيه ط (قوله: بخلاف كافر أسلم) أي فإنه يقصر. قال في الدرر لأن نيته معتبرة فكان مسافرا من الأول بخلاف الصبي فإنه من هذا الوقت يكون مسافرا، وقيل يتمان، وقيل يقصران. اهـ. والمختار الأول كما في البحر وغيره عن الخلاصة. قال في الشرنبلالية: ولا يخفى أن الحائض لا تنزل عن رتبة الذي أسلم فكان حقها القصر مثله. اهـ. وأجاب في نهج النجاة بأن مانعها سماوي بخلافه اهـ أي وإن كان كل منهما من أهل النية بخلاف الصبي، لكن منعها من الصلاة ما ليس بصنعها فلغت نيتها من الأول، بخلاف الكافر فإنه قادر على إزالة المانع من الابتداء فصحت نيته."

( كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، 134،135/2، ط: دار الفكر) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100240

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں