بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حیاۃ الصحابہ میں مذکور حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے صدقہ کرنے متعلق واقعہ کی تحقیق


سوال

ڈاکٹر رافت الباشا کی  تالیف "حیاۃ الصحابہ"  ص 434 پر  حالات حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ ایک روز حضرت ابوطلحہ اپنے باغ میں سایہ دار درخت کے نیچے نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک سبز رنگ سرخ چونچ اور گلابی پاؤں والا خوبصورت پرندہ اس درخت کی ٹہنی پر بیٹھکر سریلی آواز میں چہچانے لگا، جس کی وجہ سے حضرت ابوطلحہ کو اپنی نماز میں توجہ نہ رہا یاد نہ رہا کہ کتنی رکعات ہوئی ہیں ۔ پھر حضرت ابوطلحہ  نے رسول اللہ  ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس باغ کو وقف کردیا کہاکہ یا رسول اللہ آپ اسے جہاں چاہیں صرف کریں ۔ دریافت یہ کرنا ہے کہ یہ واقعہ حیاۃ الصحابہ میں کس کتاب سے ماخوذ ہے؟

 لوجہ اللہ مطلع فرمائیں اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو طلحہ نے اپنی باغ نماز میں خلل ہونے کی بناء پر وقف کیا ہے، جب کہ بخاری وغیرہ میں صحیح حدیث موجود ہے،  جس میں یہ واقعہ قرآنی آیاتلَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ﴿آل‌عمران: ٩٢﴾کے شان نزول میں مذکور ہے ۔

جواب

سائل نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا جو واقعہ ذکر کیا ہے، یہ امام مالک رحمہ اللہ نے اپنی موطأ میں اور امام بیہقی رحمہ اللہ سنن کبری میں نقل کیا ہے۔

الموطأ للامام مالك بن أنسمیں ہے:

"٦٩ - وحدثني مالك، عن عبد الله بن أبي بكر، أن أبا طلحة الأنصاري كان يصلي في حائطه فطار دبسي، فطفق يتردد، يلتمس مخرجا. فأعجبه ذلك. فجعل يتبعه بصره ساعة. ثم رجع إلى صلاته، فإذا هو لا يدري كم صلى؟ فقال: لقد أصابتني في مالي هذا فتنة، فجاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكر له الذي أصابه في حائطه من الفتنة وقال: يا رسول الله هو صدقة لله فضعه حيث شئت."

 (كتاب الصلاة، باب النظر في الصلاة إلى ما يشغلك عنها، ١ / ٩٨، ط:دار إحياء التراث العربي، بيروت - لبنان)

السنن الكبرى للبيهقيمیں ہے:

"٣٨٧٣ - أخبرناه أبو أحمد المهرجاني، أنبأ أبو بكر بن جعفر، ثنا محمد بن إبراهيم، ثنا ابن بكير، ثنا مالك، عن عبد الله بن أبي بكر، أن أبا طلحة الأنصاري، كان يصلي في حائط له فطارد بشيء فطفق يتردد يلتمس مخرجا فأعجبه ذلك فجعل يتبعه بصره ساعة، ثم رجع إلى صلاته فإذا هو لا يدري كم صلى فقال: لقد أصابني في مالي هذا فتنة، فجاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكر له الذي أصابه في حائطه من الفتنة، فقال: يا رسول الله هو صدقة فضعه حيث شئت."

(کتاب الصلاة، باب من نظر في صلاته إلى ما يلهيه لم يسجد سجدتي السهو، ٢ / ٤٩٢، ط:دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)

جبکہ ﴿ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ﴾ کے تحت حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا جو واقعہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ و دیگر مفسرین نے نقل کیا ہے، وہ الگ واقعہ ہے، پس دونوں واقعات میں کسی قسم کا تعارض نہیں، یعنی نماز میں خلل کی وجہ سے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنا ایک باغ صدقہ کیا، جبکہ آیت ﴿ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ﴾کے نزول کے بعد بیر حاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کے حضور پیش کردیا تھا۔

صحيح البخاريمیں ہے:

"٤٥٥٤ - حدثنا إسماعيل قال: حدثني مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة: أنه سمع أنس بن مالك  يقول: «كان أبو طلحة أكثر أنصاري بالمدينة نخلا، وكان أحب أمواله إليه بيرحاء، وكانت مستقبلة المسجد، وكان رسول الله ﷺ يدخلها ويشرب من ماء فيها طيب، فلما أنزلت: ﴿لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون﴾ قام أبو طلحة، فقال: يا رسول الله، إن الله يقول: ﴿لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون﴾ وإن أحب أموالي إلي بيرحاء، وإنها صدقة لله، أرجو برها وذخرها عند الله، فضعها يا رسول الله، حيث أراك الله، قال رسول الله ﷺ: بخ، ذلك مال رايح، ذلك مال رايح، وقد سمعت ما قلت، وإني أرى أن تجعلها في الأقربين، قال أبو طلحة: أفعل يا رسول الله، فقسمها أبو طلحة في أقاربه وبني عمه». قال عبد الله بن يوسف وروح بن عبادة: ذلك مال رابح.

حدثني يحيى بن يحيى قال: قرأت على مالك: مال رايح."

 (سورة آل عمران، باب: ﴿لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون﴾ إلى: ﴿به عليم﴾، ٦ / ٣٧، ط: السلطانية)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144505101844

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں