بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو القعدة 1445ھ 17 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ہاکس بے کے قریب جزیرے کی مسجد میں نمازِ جمعہ قائم کرنے کا حکم


سوال

ہم ہاکس بےکے قریب ایک جزیرے میں رہتے ہیں، ہمیں اپنے گھر جانے کے لیے کشتی استعمال کرنی پڑتی ہے ، اس جزیرے میں اچھی خاصی آبادی رہائش پذیر ہے ،جس کے لیے وہاں دو مسجدیں بھی موجو د ہیں، ایک جامع مسجد ہے جہاں جمعہ  کی نماز بھی اد اکی جاتی  ہے ، جب کہ دوسری مسجد میں پانچوں وقت کی باجماعت نماز ادا کی جاتی ہے ۔

ہمار اگھر اس مسجد سے دور ہے جس مسجد میں جمعہ  کی نماز ہوتی ہے ، ضعیف اور کمزور افراد کو جانے میں کافی مشکل ہوتی ہے ، جمعہ کی نماز کے وقت وہ مسجد بھر جاتی ہے ،گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے مسجد سے باہر بھی لوگ نماز اد ا کرتے ہیں اور دوسری مسجد جو کہ ہمارے گھر سے قریب بھی ہے  ، اس میں اتنی گنجائش ہے کہ ہم آسانی سے اس میں جمعہ کی نماز پڑھ سکتے ہیں اور اچھی خاصی تعداد اس میں بھی آسکتی ہے ، ہم چاہتے ہیں کہ اس مسجد میں جمعہ کی باجماعت نماز کا اہتمام کریں ۔ کیا ہم اس دوسری مسجد میں جو کہ ہمارے گھر سے قریب ہے جمعہ قائم کرسکتے ہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ جمعہ کی نماز  ہر اس جگہ قائم کرنا جائز ہے جہاں جمعہ کی تمام شرائط پائی جائیں ،ان شرائط میں سے ایک شرط مصر (شہر ) یا فناءِ  مصر (فناءِ شہر )  ہونا ہے ، نیز جو گاؤں اتنا بڑا ہو کہ جس کی مجموعی آبادی کم از کم دو ڈھائی ہزار نفوس پر مشتمل ہو تو ایسے بڑے گاؤں / بستی میں جمعہ وعیدین کی نماز قائم کرنا درست اور جائز ہوتا ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ جزیرے میں آبادی کی تعداد دو ڈھائی ہزار یا اس سے زیادہ ہے تو سائل کےگھر کے  قریب واقع  مسجد میں بھی جمعہ کی نماز پڑھنا درست ہے،تا ہم  ایک ہی  جگہ بڑے اجتماع کے ساتھ جمعہ کی نماز ادا کرنا زیادہ بہتر ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن عمر رضي اللّٰہ عنہ أنہ کتب إلی أبي موسیٰ، وإلی عمرو بن العاص، وإلی سعد بن أبي وقاص أن یتخذ مسجد جامعا ومسجد للقبائل، فإذا کان یوم الجمعة انضموا إلی المسجد الجامع فشهدوا الجمعة."

(أخرجه ابن عساکر في مقدمة تاریخ دمشق، کذا في تلخیص الحبیر، إعلاء السنن ۸ /۹۰ رقم: ۲۰۸ ط: دار الکتب العلمیۃ) 

حلبی کبیر میں ہے:

"و لاشك في جواز الجمعة في البلاد و القصبات انتهی و هذا الذی قاله من حیث کون الموضع مصرًا أو لا و أما من حیث جواز التعدد و عدمه فالأول هو الاحتیاط لأن فیه قوی إذا الجمعة جامعة للجماعات و لم تکن في زمن السلف تصلی إلا في موضع واحد من المصر و کون التصحیح جواز التعدد للضرورۃ للفتوی لایمنع شرعیۃ الاحتیاط للتقوی و ذکر فی فتاوی."

( حلبی کبیری :۴۷۵ )

فتاوی شامی میں ہے:

(و تؤدى في مصر واحد بمواضع كثيرة) مطلقا على المذهب وعليه الفتوى، (قوله : على المذهب) فقد ذكر الإمام السرخسي أن الصحيح من مذهب أبي حنيفة جواز إقامتها في مصر واحد في مسجدين و أكثر به نأخذ لإطلاق «لا جمعة إلا في مصر» شرط المصر."

( باب الجمعہ ، ج۔۲، ص ۔۱۴۴،۴۵،ط۔ سعید)

فقط و الله اعلم


فتوی نمبر : 144303100394

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں