بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 جُمادى الأولى 1446ھ 02 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

حوالہ/ ہنڈی کے رائج طریق کار کا حکم اور اس کا متبادل


سوال

1) میں دبئی میں مقیم ہوں، وہاں سے اکثر لوگ ہنڈی کے ذریعے پیسے بھیجتے ہیں،  اور طریقۂ کار یہ ہے کہ وہاں لوگ ہنڈی والے کے پاس جاتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ میرے لیے اتنے دراہم پاکستانی بناؤ (یعنی دراہم کے بدلے پاکستانی روپے پاکستان پہنچا دو)، تو ہنڈی والا پوچھتا ہے کہ دراہم نقد  دو گے یا ادھار؟ اگر نقد دراہم دیے جائیں تو اس کا ریٹ الگ ہوتا ہے، اور ادھار کا الگ، تفصیل اس کی یہ ہے کہ درہم کی قیمت مثلاً 77  روپے پاکستانی ہے، اب اگر نقد دراہم دے دیے جائیں تو وہ پاکستان میں 77 روپے کے حساب سے پیسے بھجوائے گا، اور اگر یہ کہا جائے کہ مثلاً دراہم ایک مہینے کے بعد دوں گا تو اس صورت میں وہ 76 روپے یا 75 روپے پاکستانی کے حساب سے پیسے بھیجتا ہے، اور بعد میں وصولی اسی 77 روپے کے حساب سے کرتا ہے، تو کیا ایسا کرنا شرعاً جائز ہے؟

مثلاً: ایک ہزار درہم پاکستان بھیجنے ہیں، اور ایک ہزار درہم کی قیمت 77 ہزار روپے ہے، تو کلائنٹ کی طرف سے نقد دراہم دینے کی صورت میں وہ یہاں پر پورے 77 ہزار روپے بھیجے گا، اور ادھار کی صورت میں 76 یا 75 ہزار بھیجے گا؟

2) دوسرا سوال یہ ہے کہ پورے امارات میں یہ ترتیب ہے کہ کام کاج کی مصروفیت کی وجہ سے ہنڈی والے کے پاس جانے کا وقت نہیں ہوتا، اس لیے لوگ ہنڈی والے کو فون کردیتے ہیں کہ تم مثلاً ایک ہزار درہم پاکستانی بنالو، وہ بنا لیتا ہے، اور یہاں پاکستان میں کوئی شخص وصول کرلیتا ہے، پھر وہ ایک ہزار درہم ہنڈی والے کو آئندہ کل یا پرسوں حوالے کیے جاتے ہیں، تو کیا اس طرح کرنا جائز ہے؟کیونکہ اس صورت میں بھی احد البدلین پر قبضہ نہیں ہوا، اور اگر مذکورہ صورت بھی جائز نہیں تو پھر جواز کی کیا صورت ہوگی؟ کیونکہ 99 فی صد لوگ تقریباً اس طرح کرتے ہیں، اتنی فراغت عموماً نہیں ہوتی کہ ہر وقت ہنڈی والے کے پاس جا سکیں۔شرعی اصطلاحات کی وضاحت کے ساتھ جواب دیجیے!

جواب

واضح رہے کہ حوالہ / ہنڈی کا کاروبار  ملکی و بین الاقوامی قوانین کے مطابق سے ممنوع ہے؛  پکڑے جانے کی صورت میں  جان و مال کے  نقصان کا خطرہ ہوتا ہے، مباح امور میں اسلام چوں کہ ملکی قوانین   کی پاسداری کا حکم دیتا ہے،  لہذا رقم کی ترسیل کے لیے  قانونی  راستہ  اختیار کرنا چاہیے،  تاہم اگر کوئی حوالہ کے ذریعہ سے رقم بھیجتا ہے تو:

حوالہ (ہنڈی) کی حیثیت چونکہ قرض کی ہے، اور  قرض کا شرعی حکم یہ ہے کہ جتنی رقم قرض کے طور پر دی ہے اتنی ہی رقم واپس لی جائے، اور قرض لینے دینے کےلیے مجلس کے اندر احد البدلین پر قبضہ کرنا ضروری نہیں ہوتا، بلکہ اگر رقم حوالہ کردی تو یہ قرض ہوجائے گا، اور رقم دینے کا بولا لیکن حوالہ نہ کی تو یہ وعدۂ قرض ہوگا۔

چنانچہ مذکورہ دونوں صورتوں یعنی ہنڈی والے کے پاس جاکر معاملہ کرنے یا فون پر معاملہ کرنے میں اگر کلائنٹ ہنڈی والے کو رقم نقد نہیں دیتا، اور ہنڈی والا پاکستان میں رقم پہنچا دیتا ہے تو یہ رقم کلائنٹ کے ذمہ قرض ہوجاتی ہے، اور قرض کا ضابطہ (جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا) یہ ہے  کہ جتنی رقم قرض لی جائے اتنی ہی رقم (اور اگر کرنسی کا فرق ہو تو ادائیگی کے وقت یا تو قرض لی ہوئی کرنسی بعینہٖ لوٹا دی جائے، یا پھر جتنی رقم قرض لی ہے اسی کے بقدر ادائیگی یا وصولیابی کے دن کے مارکیٹ ریٹ کے حساب سے) رقم لوٹا دی جائے، اس سے زیادہ جائز نہیں، لہٰذا ہنڈی والا اگر (دراہم کی وصولی ادھار ہونے کی وجہ سے)پاکستان میں (مارکیٹ ریٹ کے مطابق 77 ہزار کی بجائے)76 ہزار یا 75 ہزار روپے ادا کرتا ہے  تو امارات میں پھر 76ہزار یا 75 ہزار کے جتنے دراہم بنتے ہیں اتنے  ہی دراہم وصول کر سکتا ہے، اس سے زیادہ (77 ہزار کے حساب سے)وصول کیے تو یہ قرض پر زیادتی ہونے کی وجہ سے سود بن جائے گا، جو حرام ہے۔

نیز اس صورت میں ہنڈی والا یہ اضافی رقم ترسیل کی اجرت کہہ کر بھی وصول نہیں کرسکتا، اس لیے کہ یہ ترسیل نہیں ہے، بلکہ قرض ہے، اور قرض کی اجرت جائز نہیں، اس لیے اگر اس پر زیادہ رقم وصول کرے گا تو وہ اجرت نہیں ہوگی بلکہ سود ہوجائے گا۔

البتہ اگر کلائنٹ ہنڈی والے کو نقد دراہم دے، اور کہے کہ پاکستان پہنچا دو تو یہ ترسیل ہے، قرض نہیں ہے، لہٰذا اس صورت میں ہنڈی والا اپنے اس ترسیل کے عمل پر اجرت وصول کرسکتا ہے، لیکن اجرت کےلیے شرط ہے کہ:

  1. پہلے سے اجرت طے کرلی جائے۔
  2. اجرت اسی رقم سے نہ کاٹی جائے، بلکہ الگ سے وصول کی جائے۔
  3. اس عمل کےلیے بازار میں عام طور پر جو اجرت لی جاتی ہے اتنی ہی اجرت لی جائے۔

العقود الدرية میں ہے:

"الدیون تقضیٰ بأمثالها."

(کتاب البیوع، باب القرض، 1/ 504، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله ‌كل ‌قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر."

(کتاب البیوع، فصل فی القرض، 5/ 166،  ط:سعید)

تحفة الفقهاء میں ہے:

"كتاب الإجارة الإجارة نوعان إجارة على المنافع وإجارة على الأعمال ولكل نوع شروط وأحكام أما الإجارة على المنافع فكإجارة الدور والمنازل والحوانيت والضياع وعبيد الخدمة والدواب للركوب والحمل والثياب والحلي للبس والأواني والظروف للاستعمال والعقد جائز في ذلك كله وشرط جوازه أن تكون .....وأما الإجارة على الأعمال فكاستئجار القصار والإسكاف والصباغ وسائر من يشترط عليه العمل في سائر الأعمال من حمل الأشياء من موضع إلى موضع ونحوها وهو نوعان استئجار الأجير المشترك والأجير الخاص الذي يسمى أجير الوحد فالأجير المشترك كاسمه الذي يتقبل الأعمال من الناس كالصباغ والقصار ونحوهما وأجير الوحد كاسمه الذي يعمل للواحد مدة معلومة وللأول أن يعمل لهم جميعا وليس لمن استأجره أن يمنعه عن العمل لغيره وفي أجير الوحد ليس له ذلك وللمستأجر أن يمنعه ثم أحكامهما تختلف في بعض الأشياء وتتفق في البعض."

(كتاب الإجارة، 2/ 347، دار الكتب العلمية بيروت)

تكملة عمدة الرعاية میں ہے:

"ويجب أن يعلم أن التي في زماننا المسماة في لساننا (بهنڈي مني آرڈر) ليس من هذا ولا له حكم السفاتج؛ لأن السفاتج كانت لسقوط خطر الطريق وذا للوصول، فإن قلت علة الكراهة هي النفع سواء كان لسقوط الخطر أو للوصول، قلت: بلى، ولكن الخطر مما لا يجوز الكفالة به ولا أجر عليه؛ لأنه ليس في وسع الإنسان إلا دفع اللصوص والحفظ إنما بفضل الله تعالى، وأما الإيصال تحل الأجرة عليه ويمكن العهدة عليه، فلا يلزم من النهي عن نفع سقوط الخطر كراهة أجرة الإيصال.

لکن الإشکال فی تصویرہ وتقریرہ أعني في أي عقد یحسب هي لیأخذ حکمه قلت إنھا حوالة وأنت تعلم أن الحوالة قدتکون بمعنی الوکالة وقدتکون أن یحتال للدائن وقدیحتال لغیرالدائن ... وقدیعطی المال من عندہ،ثم یأخذمن المحیل، وقدیأخذ من المحیل ثم یؤدی إلی المحتال له وقد یربح فی المال الذی أخذ من المحیل ویکون الربح حلالا کما مر في الکفالةفإذا دفع المحیل مالا إلی المحتال علیه وقال ادفعه إلی فلان فی البلد الفلانی ولک أجرۃ فی إیصاله وحسابه فأي محذور یلزم لیحکم بالمنع ولاروایة أن الوکیل أو المحتال علیه حرام علیه الأجرۃ والأخذ من المؤکل والمحیل إن عمل فیه عملاً فلابأس به إن شاء اللہ تعالیٰ."

(كتاب الحوالة، في هامش مبحث السفتجة، ص:120، ط:رحمانية)

الدر المختار میں ہے:

"(ولو) (دفع غزلا لآخر لينسجه له بنصفه) أي بنصف الغزل (أو استأجر بغلا ليحمل طعامه ببعضه أو ثورا ليطحن بره ببعض دقيقه) فسدت في الكل؛ لأنه استأجره بجزء من عمله، والأصل في ذلك نهيه صلى الله عليه وسلم عن قفيز الطحان وقدمناه في بيع الوفاء.

والحيلة أن يفرز الأجر أولا أو يسمي قفيزا بلا تعيين ثم يعطيه قفيزا منه فيجوز."

(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، 6/ 56، ط:سعيد)

رد المحتارمیں ہے:

"وفي شرح الجواهر: ‌تجب ‌إطاعته فيما أباحه الشرع، وهو ما يعود نفعه على العامة، وقد نصوا في الجهاد على امتثال أمره في غير معصية."

(كتاب الأشربة، ج:6،  ص:460، ط:سعيد)

فقط والله أعلم

 


فتوی نمبر : 144603101271

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں