بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہوائی جہازمیں نماز کا وقت معلوم کرنے کے لیے کس جگہ کا اعتبار کیا جائے گا؟


سوال

 ہوائی جہاز میں دوران ِطویل سفر فضا میں نماز کے وقت کا پتہ کس جگہ کے اعتبار سے لگایا جائے گا؟ جب کہ اس وقت  یہ پتہ نہیں ہوتا کی جہاز اب کس جگہ تک پہنچا ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں ہوائی جہاز کے سفر کے دوران جس طرح اپنی دیگر ضروریات کے انتظام کی پہلے سے فکر کی جاتی ہے اور اس کے لیے تیاریاں کی جاتی ہیں اسی طرح نماز سے متعلق سب سے پہلے خود تحری کرکے نمازوں کے اوقات معلوم کیے جائیں،کہ سفر مغرب کی جانب ہے یا مشرق کی جانب؟ اور سفر کے دوران کن کن ممالک سے گزر ہوگا ،اور اس دوران کون کی سی نماز کا وقت ہوگا،یہ تمام باتیں مصلی(نمازی) کو خود معلوم کرنی چاہییں،اور اگر نمازوں کے اوقات اور سورج کے غروب اور طلوع ہونے کے اوقات جہاز میں کسی طرح معلوم ہوجائیں تواس کے مطابق عمل کرنا چاہیے،نیز اگر جہاز کا عملہ مسلمان ہو تو ان سے بھی راہ نمائی حاصل کی جاسکتی ہے،البتہ اگر ایک نماز کی ادائیگی کے بعد مغرب کی طرف سفر کرنا ہوتو جو نماز پڑھ لی گئی پھر اسی نماز کا وقت دوسری جگہ( ملک) میں اس نماز کا وقت آجائے تو اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وفاقد وقتهما) كبلغار، فإن فيها يطلع الفجر قبل غروب الشفق في أربعينية الشتاء(مكلف بهما فيقدر لهما)....ولا يساعده حديث الدجال؛ لأنه وإن وجب أكثر من ثلثمائة ظهر مثلا قبل الزوال ليس كمسألتنا؛ لأن المفقود فيه العلامة لا الزمان، وأما فيها فقد فقد الأمران.

(قوله: حديث الدجال) قال الرملي في شرح المنهاج: ويجري ذلك فيما لو مكثت الشمس عند قوم مدة. اهـ. ح. قال في إمداد الفتاح قلت: وكذلك يقدر لجميع الآجال كالصوم والزكاة والحج والعدة وآجال البيع والسلم والإجارة، وينظر ابتداء اليوم فيقدر كل فصل من الفصول الأربعة بحسب ما يكون كل يوم من الزيادة والنقص كذا في كتب الأئمة الشافعية، ونحن نقول بمثله إذ أصل التقدير مقول به إجماعا في الصلوات.....وفي هذا الحديث ‌أن ‌ليلة ‌طلوعها من مغربها تطول بقدر ثلاث ليال، لكن ذلك لا يعرف إلا بعد مضيها لانبهامها على الناس، فحينئذ قياس ما مر أنه يلزم قضاء الخمس؛ لأن الزائد ليلتان فيقدران عن يوم وليلة وواجبهما الخمس.

(قوله: فقد فقد الأمران) لم أر من تعرض عندنا لحكم صومهم فيما إذا كان يطلع الفجر عندهم كما تغيب الشمس أو بعده بزمان لا يقدر فيه الصائم على أكل ما يقيم بنيته، ولا يمكن أن يقال بوجوب موالاة الصوم عليهم؛ لأنه يؤدي إلى الهلاك. فإن قلنا بوجوب الصوم يلزم القول بالتقدير، وهل يقدر ليلهم بأقرب البلاد إليهم كما قاله الشافعية هنا أيضا، أم يقدر لهم بما يسع الأكل والشرب، أم يجب عليهم القضاء فقط دون الأداء؟ كل محتمل، فليتأمل."

(کتاب الصلوۃ،366،367/1،ط:سعید)

احسن الفتاوی میں ہے:

"عنوان:ہوائی سفر میں دن بہت بڑا یا بہت چھوٹا ہوجائے تو نماز روزہ کا حکم:

سوال:زید ہوائی جہاز کے ذریعہ مغرب کی سمت جارہا ہےسورج غروب نہیں ہورہا تو نماز کس طرح ادا کرے اور روزہ کس وقت افطار کرے؟یا اس کے برعکس مشرق کی طرف جارہاہےجس کا دن بالکل چھوٹا رہے گا اس کی نماز اور روزہ کے متعلق کیا حکم ہے؟

جواب:(حوالہ مذکورہ بالا) ان عبارات سے ثابت ہوا کہ مغرب کی طرف جانے والا شخص اگر چوبیس گھنٹے میں پانچ نمازیں ان اوقات میں ادا کرسکتا ہو تو ہر نماز اس کا وقت داخل ہونے پر ادا کرے اور اگر اس کا دن اتنا طویل ہوگیا کہ چوبیس گھنٹے میں پانچ نمازوں کا وقت نہیں آتا تو عام ایام میں اوقات نماز کے فصل کا اندازہ کرکے اس کے مطابق نمازیں پڑھے،یہی حکم روزہ کا ہے۔۔۔۔۔۔۔جو شخص جانبِ مشرق جا رہا ہے نماز کے اوقات اس پر گزرتے رہیں،ان اوقات میں نماز ادا کرے گا ۔"

(کتاب الصلاۃ،باب صلاۃ المسافر،71/4،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101403

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں