بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہوا خارج ہونے سے شرم گاہ کو دھونے کا حکم


سوال

اگر کسی شخص سے ہوا خارج ہو تو کیا وہ اپنی شرمگاہ کو دھوسکتا ہے یا نہیں اور اس کی نماز صحیح ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ ہوا کے خارج ہونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، وضو کیے بغیر نماز ادا کرنا درست نہیں،  لیکن ہوا کے نکلنے سے بدن اور کپڑا ناپاک نہیں ہوتا؛  اس لیے محض ہوا کے خارج ہونے سے شرمگاہ کو دھونا لازم نہیں ہے،  اس کے بغیر بھی وضو کرکے نماز پڑھنے سے نماز ادا ہوجائے گی، بلکہ محض ہوا خارج ہونے سے استنجا کو ضروری سمجھنا درست نہیں ہے۔

بدائع الصنائع ميں ہے:

"وأما بيان ما يستنجي منه فالاستنجاء مسنون من كل نجس يخرج من السبيلين له عين مرئية كالغائط والبول والمني والودي والمذي والدم لأن الاستنجاء للتطهير بتقليل النجاسة وإذا كان النجس الخارج من السبيلين عينا مرئية تقع الحاجة إلى التطهير بالتقليل ولا استنجاء في الريح لأنها ليست بعين مرئية." 

(كتاب الطهارة: ج1 ض190.ط: دار الكتب العلمية)

در مختار میں ہے:

"(و) خروج غير نجس مثل (ريح أو دودة أو حصاة من دبر ) 

و فی رد المحتار:

 (قوله: مثل ريح) فإنها تنقض لأنها منبعثة عن محل النجاسة لا لأن عينها نجسة؛ لأن الصحيح أن عينهاطاهرة، حتى لو لبس سراويل مبتلة أو ابتل من أليتيه الموضع الذي تمر به الريح فخرج الريح لا يتنجس، وهو قول العامة."

(حاشیۃ ابن عابدین ت: فرفور، نواقض الوضوء: ج1 ص450)

محیط برہانی میں ہے: 

" الغائط يوجب الوضوء قل أو كثر، وكذلك البول، وكذلك الريح الخارج من الدبر."

(كتاب الطهارات: ج1 ص49. ط:دار الكتب العلمية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144508101423

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں