کیا ہاتھوں پر ایلفی لگی ہونے کی صورت میں وضو ہو جائے گا؟
جن اعضاء کا وضو یا غسل میں دھونا فرض ہے، ان اعضاء تک پانی پہنچانا ضروری ہے، ان میں سے کوئی عضو سوئی کے ناکہ کے برابر بھی خشک نہ رہے، اگر ان اعضاء میں سے کسی عضو میں سوئی کے ناکہ کے برابر بھی ایسی جگہ ہو جس تک پانی نہ پہنچا ہو تو وہ وضو اور غسل شرعاً نا مکمل ہے، اور ایسے نامکمل وضو /غسل سے پڑھی گئی نماز بھی کالعدم ہوگی اور ذمہ میں اسی طرح فرض رہے گی۔ لہٰذا اگر ان اعضاء میں سے کسی عضو پر ایلفی یا اور کوئی ٹھوس چیز لگ جائے جس کے ہوتے ہوئے کھال تک پانی نہیں پہونچتا ہو تو اس کے لگے ہوئے ہونے کی حالت میں وضو /غسل نہ ہوگا۔ عموماً ایلفی چھوٹ جاتی ہے، لہٰذا ناخن پر لگی ایلفی کو چھڑانا ضروری ہوگا؛ کیوں کہ اس میں زیادہ مشقت نہیں ہے۔ البتہ اگر کھال پر ایلفی لگی ہو اور پوری کوشش کے بعد بھی مکمل طور پر نہ چھوٹے، اور زیادہ کوشش کے نتیجے میں کھال اترنے یا زخم بننے کا اندیشہ ہو تو جس قدر ہٹ سکے اس کا چھڑانا ضروری ہوگا۔
البحر الرائق (1 / 14):
"وَلَوْ لُصِقَ بِأَصْلِ ظُفْرِهِ طِينٌ يَابِسٌ وَبَقِيَ قَدْرُ رَأْسِ إبْرَةٍ مِنْ مَوْضِعِ الْغَسْلِ لَمْ يَجُز".
(الفتاوی الهندیة ۱؍۴:
"الجامع الصغیر: سئل أبو القاسم عن وافر الظفر الذي یبقی في أظفاره الدرن، أو الذي یعمل عمل الطین أو المرأة التي صبغت إصبعها بالحناء أو الصرام أو الصباغ قال: کل ذلك سواء یجزیهم وضوء هم إذ لایستطاع الامتناع عنه إلا بحرج، والفتوی علی الجواز".
"ویعفی أثر شق زواله بأن یحتاج في إخراجه إلی نحو الصابون". (مجمع الأنهر ۱؍۹۰)
"والمراد بالأثر اللون والریح، فإن شق إزالتهما سقطت". (البحر الرائق ۱؍۲۳۷)
"شرط صحته أي الوضوء زوال ما یمنع وصول الماء إلی الجسد کشمع شحم". (مراقي الفلاح مع الطحطاوي ۶۲)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144111200900
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن