بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہاتھوں کی انگلیوں پر تسبیحات پڑھنا اور اس کا ثبوت


سوال

 بعض لوگ انگلیوں پر تسبیحات پڑھنے سے منع کرتے ہیں، اس کا کیا حکم ہے ؟  اور سوال کرتے ہیں کہ تسبیح پر تسبیحات پڑھنا کہاں سے ثابت ہے؟

جواب

نماز کے علاوہ عام حالت میں  اُنگلیوں  پر تسبیحات کا گننا بلا کراہت جائز ہے، بلکہ حدیث شریف میں تسبیحات  کو اُنگلیوں پر گننے کی ترغیب بھی آئی  ہے، اور نبی اکرم ﷺ سے انگلیوں پر تسبیح پڑھنا صحیح احادیث سےبھی  ثابت ہے۔

”حضرت یسیرہ رضی اللہ عنہا جو ہجرت کرنے والیوں میں سے تھیں، فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا تھا : تسبیح و تہلیل اور تقدیس کو اپنے اُوپر لازم کرلو اور ان کو اُنگلیوں  پر گنا کرو، کیوں کہ ان سے سوال کیا جائے گا اور ان کو بلوایا جائے گا، اور ذکر سے غفلت نہ کیا کرو، ورنہ رحمت سے بھلادی جاوٴگی۔“ 

حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :

"میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ  رات کو سوتے وقت ہاتھوں پر گن کر تینتس مرتبہ 'سبحان اللّٰه ' ،  تینتیس مرتبہ 'الحمد للّٰه اور چونتیس مرتبہ 'اللّٰه أكبر' پڑھتے تھے۔"

 اور  انگلیوں پر تسبیح پڑھنا  یا تسبیحات پر تسبیح پڑھنا   صرف اعداد کو یاد رکھنے کے لیے ہوتا ہے ، اس لیے اس میں کسی قسم کی قباحت نہیں ہے، نیز   ہاتھوں کی انگلیوں کے علاوہ کھجور  کی گھٹلیوں اور کنکریوں پر بھی تسبیح پڑھنا ثابت ہے، اس لیے تسبیح پر تسبیحات شمار کرنے میں بھی حرج نہیں ہے، بعض اکابر نے تسبیح پر تسبیحات شمار کرنے کے جواز پر مستقل رسالہ بھی لکھا ہے۔

”عن یسیرة رضی الله عنها، وکانت من المهاجرات قالت: قال لنا رسول الله صلی الله علیه وسلم: علیکن بالتسبیح والتهلیل والتقدیس واعقدن بالأنامل فإنهن مسئولات مستنطقات ولاتغفلن فتنسین الرحمة.“

(رواه الترمذي وأبوداؤد، مشکاة ص:۲۰۲)

"قال ابن عمر: لقد رأیت النبي صلی اللّٰه علیه وسلم یعدهن في یده ویسبح ثلاثاً و ثلاثین، ویحمد ثلاثاً و ثلاثین، ویکبر أربعاً و ثلاثین عند مضجعه من اللیل".

(المصنف لابن أبي شیبة ۱۵؍۱۳۴، رقم: ۹۸۷۴)

عن عائشة بنت سعد بن أبي وقاص عن أبیها أنه دخل مع رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم علی امرأة، وبین یدیها نوی أو حصی تسبح به، الحدیث".

(سنن أبي داؤد ۱؍۲۱۰)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206201377

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں