بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو القعدة 1445ھ 17 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ہاتھ سے لعنت بھیجنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی / عدت میں مدرسہ جانا / مہر اور جہیز کے سونے پر زکاۃ


سوال

1۔میرے شوہر نے لڑائی کے وقت مجھے طلاق کی دھمکی دی، اس کے تقریباً دو گھنٹے کے بعد جب میرے بھائی میرے شوہر کے کہنے پر مجھے لینے کے لیے آئے تو شوہر نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم بھائیوں کے ساتھ جاؤ گی؟ اور میرے ہاں کہنے پر انھوں نے دونوں ہاتھوں سے میرے منہ پر لعنت بھیجی، زبان سے کچھ نہیں کہا، سوائے اس مخصوص آواز کے جو کہ لعنت کے وقت منہ سے نکلتی ہے  ( ایہہ ایہہ ایہہ) ،تو اگر اس وقت ان کی طلاق کی نیت ہو گی تو کیا طلاق بائن واقع ہو گی یا نہیں؟ اس واقعہ  کو دو سال ہو گئے ہیں۔ میں نے (اس کے تقریباً دو ماہ کے بعد) کورٹ میں تنسیخ نکاح کا کیس کیاہوا ہے ،تو اگر اس وقت طلاق بائن واقع ہو گئی  ہوتو کیا کورٹ کے فیصلے کے بعد مجھے عدت گزارنی ہو گی یا نہیں ؟

2۔میں ایک مدرسے میں معلمہ هوں اور میرے گھر سے مدرسے کا فاصلہ تقریباً ایک ڈیڑھ منٹ کا ہےتو کیا میں دوران عدت مدرسہ جا سکتی ہوں یا نہیں؟ کیونکہ مدرسے میں معلمات کی کمی کی وجہ سے میرے چھٹی کرنے سے حرج  ہو گا۔

3۔میرے حق مہر میں ساڑھے نو تولے سونا اور میرے میکے کی طرف سے ساڑھے چار تولے سونا میرے شوہر کے پاس ہے،تو کیا گزشتہ دو سال کی زکوٰۃ اور قربانی مجھ پرہو گی یا نہیں؟

یا اگر کورٹ کے ذریعے مجھے وہ سونا مل جائے تو کیا گزشتہ دو سال کی زکوٰۃ اور قربانی مجھ پرہو گی؟ یا نہ          ملنے کی صورت میں زکوٰۃ اور قربانی کا کیا حکم ہوگا ؟

جواب

1۔واضح رہے کہ طلاق کے وقوع  کے لیے زبانی یا تحریری الفاظ کا ہونا ضروری ہے کہ جو طلاق کے معنی میں صراحتا ً یا کنایتاً دلالت کرتے ہوں  ،بغیر الفاظ کے محض ہاتھ  سے لعنت بھیجنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی ،لہذا صورت مسئولہ میں  شوہر کے طلاق کی دھمکی دینے یا لعنت بھیجنے سے  سائلہ پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے اگرچہ شوہر کی طلاق دینے کی نیت ہو،نکاح حسب سابق برقرار ہے۔

باقی  سائلہ نے  عدالت میں تنسیخ ِ نکاح کا جو کیس دائر  کیا ہے اگر اس میں تمام شرعی تقاضا پورے کرکے عدالت  تنسیخ کا فیصلہ کرتی ہے تو عدالت کے فیصلہ کے بعد عورت پر عدت لازم ہوگی ۔

بہتر یہ ہے کہ جب عدالت سے فیصلہ آجائے تو  عدالت کی مکمل کاروائی (سائلہ کی طرف سے دائر کردہ مقدمہ اور عدالت کی طرف سے جاری کردہ  فیصلہ اردو ترجمہ کے ساتھ ) دار الافتاء ارسال کرکے اس کے بارے شرعی حکم  معلوم کرلیا جائے ۔

فتاوی شامی میں ہے  :

" (قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس والإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي."

(کتاب الطلاق ،3/ 230،ط:سعيد)

2۔معلمہ کا عدت کے دوران گھر سے مدرسہ جانا شرعاجائز نہیں ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (‌في ‌بيت ‌وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه".

 

(کتاب الطلاق، فصل فی الحداد، ج:3،ص:536،سعید)

3۔صورت مسئولہ میں شوہر پر مہر ادا کرنا لازم ہے ،البتہ جب تک شو ہر  بیوی کو حق مہر پر قبضہ نہ دیدیے بیوی پر اس مہر کی زکاۃ لازم نہیں ہوگی ،جب بیوی مہر پر قبضہ کرلے تو اس کے بعد سے اس سونے پر زکاۃ لازم ہوگی ۔

باقی سائلہ کو اپنے میکے کی طرف سے جو  ساڑھے چار تولہ سونا ملا ہے ،وہ سائلہ  کی ملکیت ہے ،لہذا اگر سائلہ  کے پاس اس کے علاوہ چاندی یا نقد رقم  میں سے  کچھ موجود ہوتو سائلہ صاحب نصاب ہے اورسائلہ  پر اپنے اس سونے،نقد رقم ، چاندی  وغیرہ کی مجموعی مالیت پر زکاۃ لازم ہوگی ،اگر گذشتہ دو سالوں کی زکاۃ ادا نہیں کی ہے تو ابھی ادا کرنالازم ہے ۔

اسی طرح صاحب نصاب ہونے کی وجہ سے سائلہ پر ہر سال کی  قربانی بھی لازم ہے ،اگر گذشتہ سالوں میں قربانی نہیں کی تھی تواب  ہر سال کی  قربانی کی جگہ  ایک متوسط بکرا یا بکری یا اس کی قیمت صدقہ کرنا ضروری ہے،بعض کے نزدیک قربانی کے ایک حصے کے برابررقم صدقہ کرنا کافی ہے۔

البحر الرائق میں ہے :

"قسم أبو حنيفة الدين على ثلاثة أقسام: قوي، وهو بدل القرض، ومال التجارة، ومتوسط، وهو بدل ما ليس للتجارة كثمن ثياب البذلة وعبد الخدمة ودار السكنى، وضعيف، وهو بدل ‌ما ‌ليس ‌بمال كالمهر والوصية، وبدل الخلع والصلح عن دم العمد والدية، وبدل الكتابة والسعاية ففي القوي تجب الزكاة إذا حال الحول، ويتراخى القضاء إلى أن يقبض أربعين درهما ففيها درهم، وكذا فيما زاد بحسابه، وفي المتوسط لا تجب ما لم يقبض نصابا، ويعتبر لما مضى من الحول في صحيح الرواية، وفي الضعيف لا تجب ما لم يقبض نصابا ويحول الحول بعد القبض عليه ."

 (كتاب الزكاة،شروط وجوب الزكاة،2/ 223ط:دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے :

"(‌ولو) (‌تركت ‌التضحية ومضت أيامها) (تصدق بها حية ناذر) فاعل تصدق (لمعينة) ولو فقيرا.

(قوله ‌ولو ‌تركت ‌التضحية إلخ) شروع في بيان قضاء الأضحية إذا فاتت عن وقتها فإنها مضمونة بالقضاء في الجملة كما في البدائع

(قوله ومضت أيامها إلخ) قيد به لما في النهاية: إذا وجبت بإيجابه صريحا أو بالشراء لها، فإن تصدق بعينها في أيامها فعليه مثلها مكانها، لأن الواجب عليه الإراقة وإنما ينتقل إلى الصدقة إذا وقع اليأس عن التضحية بمضي أيامها، وإن لم يشتر مثلها حتى مضت أيامها تصدق بقيمتها، لأن الإراقة إنما عرفت قربة في زمان مخصوص ولا تجزيه الصدقة الأولى عما يلزمه بعد لأنها قبل سبب الوجوب اهـ (قوله تصدق بها حية) لوقوع اليأس عن التقرب بالإراقة، وإن تصدق بقيمتها أجزأه أيضا لأن الواجب هنا التصدق بعينها وهذا مثله فيما هو المقصود اهـ ذخيرة."

 (‌‌كتاب الأضحية،6/ 320،ط:سعید )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405100516

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں