بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہاتھ میں کڑا پہننا


سوال

ہاتھ میں کڑی/ کڑا پہننا اس کا وجود کیسے ہوا؟ کب سے شروع ہوا؟ اور روافض کیا عقائد رکھتے کڑا پہننے سے متعلق کیوں پہنتے ہیں ؟ 

جواب

ہاتھوں   میں کڑے پہننے کا وجود ، آغاز یا اس بابت روافض کے اعتقاد کا ہمیں علم نہیں، البتہ  اسلامی شریعت میں اس قسم کے کڑے پہننے کی ممانعت صاف واضح طور پر موجود ہے، مسلمانوں کو ایسی چیزوں سے اجتناب کرنے کا حکم ہے، چناں چہ مسند احمد میں ہے کہ  حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کے ہاتھ میں پیتل کا کڑا دیکھ کر ناراضی کا اظہار فرمایا اور  اس کو  اتار  کر پھینکنے کا حکم دیا تھا۔نیز اگر ہاتھوں میں کڑا  زیور کے  طور پر زیبائش وآرائش کے لیے  پہنا جائے تو بھی  مرد کے لیے جائز نہیں ہے، البتہ  عورتوں کے لیے اس غرض سے سونے یا چاندی کے   كڑےپہننا جائز ہے۔

مسند أحمد  میں ہے:

"عن الحسن قال: أخبرني عمران بن حصين أن النبي صلى الله عليه وسلم أبصر على عضد رجل حلقة، أراه قال من صفر، فقال: " ويحك ما هذه؟ " قال: من الواهنة؟ قال: " أما إنها لا تزيدك إلا وهنا انبذها عنك؛ فإنك لو مت وهي عليك ما أفلحت أبدا."

  (مسند عمران بن حصین ؓ، 33 / 204، ط:مؤسسة الرسالة)

التجريد للقدوری میں ہے:

"فإن قالوا قد كان لبس الحلى عن النساء محظور، بدلالة قوله عليه الصلاة والسلام: (من تطوق بطوق من ذهب طوق من نار)، وفي حديث فاطمة بنت قيس أنها أتت النبي صلى الله عليه وسلم وفي يدها سواران من ذهب، فقال: (من تسور بسوار من ذهب سور بسوار من نار)   قالوا: ومتى كان اللبس محظور ففيه الزكاة.  قلنا: لا نعلم أن هذا كان محظورا على النساء، فأما الخبر الأول: فمحمول على الرجال، وأما الثاني: فإنما قاله فيمن لا يؤدي الزكاة، ولو ثبت ما قالوا فأخبارنا في حال الإباحة، ألا ترى: أنه لو كان ذلك في حال الحظر لأنكر اللبس أولا ثم أمر بإخراج الزكاة."

 (كتاب الزكاة، 3/ 1325، ط: دارالسلام، قاهرة)

فتاوی شامی  ميں هے:

"(ولا يتحلى) الرجل (بذهب وفضة) مطلقا (إلا بخاتم ومنطقة وحلية سيف منها) أي الفضة إذا لم يرد به التزين. ...(ولا يتختم) إلا بالفضة لحصول الاستغناء بها فيحرم (بغيرها...الخ."

(کتاب الحظر والاباحة،فصل فی اللبس، 6/ 358، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504100649

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں