بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہاتھ پر مہندی کی ڈیزاین والی تصویریں شائع کرنے کاحکم


سوال

 میں مہندی آرٹسٹ  ہوں اور ڈیزائنگ بنا کر نیٹ پر فوٹو شیئر کرتا ہوں،  اس  میں ویسے تو کوئی بے پردگی نہیں ہے، بس ہاتھ کے فوٹو ہوتے ہیں تو کیا اس   میں بھی گناہ ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ عورت  کا مکمل جسم    ستر ہے سوائے دونوں ہاتھوں کے اپنے  گٹوں تک اور دونوں پیروں کے  ٹخنوں تک    ، اس کے علاوہ    عورت   کے لیے اپنے جسم کےکسی بھی  حصے کو کسی مرد کے سامنے ظاہر کرنا جائز نہیں ہے، صورتِ مسئولہ میں  سائل اگر عورت کے    مہندی لگی ہوئی ہاتھوں  کی صرف گٹوں تک کی تصویر  شیئر کرتاہے تو  یہ  تصویر   اور بے پردگی کے زمرے میں نہیں آئے گا، تاہم بہتر یہ ہے کہ مہندی کے ڈیزائن حقیقی ہاتھ کے بجائے صرف مصنوعی ہاتھ پر بناکر لگائیں؛  تاکہ کسی قسم کے فتنے کا اندیشہ نہ رہے۔ لیکن اگر سائل اس سے  آگے  کے حصے مثلاً کہنی تک  کے حصے کی تصویر بناکر شیئر کرتاہے تو شرعاً یہ  بے پردگی  کے زمرے میں آنے کی وجہ سے    ناجائز  ہوگا   اور اس  سے  احتراز کرنا ضروری ہوگا۔

یہ بھی ملحوظ رہے کہ سائل کے لیے اجنبیہ/ غیر محرم عورت کے ہاتھ چھونا جائز نہیں ہے،  اگر سائل عورت کے ہاتھ پر خود مہندی لگاتا ہے تو یہ جائز نہیں ہوگا۔ اسی طرح اگر مہندی ڈیزائن کی ویڈیو یا تصاویر یوٹیوب پر دے کر کمانا مقصود ہے تو یوٹیوب پر چینل بناکر کمانا درست نہیں ہے۔

 فتاویٰ ہندیہ  میں ہے:

"‌بدن ‌الحرة عورة إلا وجهها وكفيها وقدميها. كذا في المتون وشعر المرأة ما على رأسها عورة."

(الفصل الاول في الطهارة وسترالعورة،ج:1، ص: 58، ط: دارالفکر)

حاشية الطحطاوي علي مراقي الفلاح  میں ہے:

"وجميع ‌بدن ‌الحرة عورة إلا وجهها وكفيها" باطنهما وظاهرهما في الأصح وهو المختار وذراع الحرة عورة في ظاهر الرواية وهي الأصح."

(فصل في متعلقات الشروط وفروعها، ص:242، ط:دارالكتب العلمية)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: أو مقطوع الرأس) أي سواء كان من الأصل أو كان لها رأس ومحي وسواء كان القطع بخيط خيط على جميع الرأس حتى لم يبق لها أثر أو يطليه بمغرة ونحوها أو بنحته أو بغسله وإنما لم يكره؛ لأنها لاتعبد بدون الرأس عادةً؛ ولما رواه أحمد عن علي قال «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم في جنازة فقال: أيكم ينطلق إلى المدينة فلايدع بها وثناً إلا كسره ولا قبراً إلا سواه ولا صورةً إلا لطخها» اهـ."

(2/ 30،کتاب الصلاة، ط: دار الکتاب الإسلامي)

خلاصۃ الفتاوی میں ہے:

"وإن کانت مقطوع الرأس لا بأس به، وکذا لو محی وجه الصورة فهو کقطع الرأس". 

(1/58، کتاب الصلاة، ط: رشیدیة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505100567

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں