بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہاتھ کو چومنے کا حکم


سوال

ہاتھ چومنا‌کیسا ہے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ ہاتھ چومنے سے مراد اگر کسی سے مصافحہ کرنے کے بعد اپنا ہاتھ چومنا مراد ہو، تو کسی اور سے مصافحہ کرنے کے بعد اپنے ہاتھ چومنا شرعاً مکروہ ہے، اور اگر ہاتھ چومنے سے مراد کسی اور کے ہاتھ چومنا مراد ہے تو کسی مستحقِ تعظیم شخص (جیسے والدین، اساتذہ، مرشد اور دیگر قابلِ احترام لوگوں) کے ہاتھ کو تعظیماً چومنا جائز ہے، البتہ دنیوی غرض کے لیے یا بطورِ عبادت کسی کا بھی ہاتھ چومنا جائز نہیں ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(وأما الكلام في تقبيل اليد) فإن قبل يد نفسه لغيره فهو مكروه وإن قبل يد غيره إن قبل يد عالم أو سلطان عادل لعلمه وعدله لا بأس به هكذا ذكره في فتاوى أهل سمرقند وإن قبل يد غير العالم وغير السلطان العادل إن أراد به تعظيم المسلم وإكرامه فلا بأس به وإن أراد به عبادة له أو لينال منه شيئا من عرض الدنيا فهو مكروه."

(الباب الثامن والعشرون، ج:5، ص:369، ط:مكتبة رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولا بأس بتقبيل يد) الرجل (العالم) والمتورع على سبيل التبرك درر ونقل المصنف عن الجامع أنه لا بأس بتقبيل يد الحاكم والمتدين (السلطان العادل) وقيل سنة مجتبى ... (ولا رخصة فيه) أي في تقبيل اليد (لغيرهما) أي لغير عالم وعادل هو المختار مجتبى وفي المحيط إن لتعظيم إسلامه وإكرامه جاز وإن لنيل الدنيا كره.

(و) كذا ما يفعله الجهال من (تقبيل يد نفسه إذا لقي غيره) فهو (مكروه) فلا رخصة فيه."

(باب الاستبراء، ج:6، ص:383، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144205200240

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں