بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ہاسٹل میں کتابیں چھوڑ جانے والے کی کتابیں پڑھنا یا بیچنے کا حکم


سوال

اگر کوئی ہاسٹل میں اپنی کتابیں چھوڑ کر چلا جائے تو اس سے پڑھنا یا بیچنا کیسا ہے ؟

جواب

کتابیں جس کی ملکیت ہیں اس کی اجازت کے بغیر بیچنا جائز نہیں، اس کو لوٹانا ضروری ہیں، اگر وہ نہ ملے تب تک ان کتب کو مطالعہ میں لایا جا سکتا ہے۔

اور اگر وہ  اس لیے کتابیں چھوڑ کر گیا ہے کہ طالب علم  پڑھیں گے تو  پھر ان کا پڑھنا تو جائز ہے لیکن بیچنا جائز نہیں ہے۔ 

بدائع الصنائع  میں ہے :

"فلها أحوال مختلفة قد يكون مندوب الأخذ، وقد يكون مباح الأخذ، وقد يكون حرام الأخذ أما حالة الندب: فهو أن يخاف عليها الضيعة لو تركها فأخذها لصاحبها أفضل من تركها؛ لأنه إذا خاف عليها الضيعة كان أخذها لصاحبها إحياء لمال المسلم معنى فكان مستحبًّا -والله تعالى أعلم- وأما حالة الإباحة: فهو أن لايخاف عليها الضيعة فيأخذها لصاحبها، وهذا عندنا.

وقال الشافعي -رحمه الله- إذا خاف عليها يجب أخذها وإن لم يخف يستحب أخذها، وزعم أن الترك عند خوف الضيعة يكون تضييعًا لها و التضييع حرام فكان الأخذ واجبًا، وهذا غير سديد؛ لأن الترك لا يكون تضييعامتناع من حفظ غير ملزم لا يكون تضييعا كالامتناع عن قبول الوديعة.

وأما حالة الحرمة: فهو أن يأخذها لنفسه لا لصاحبها."

(کتاب اللقطة، فصل في بيان أحوال اللقطة، ج:6، ص: 200، ط:دار الكتب العلمية)

ملتقى الأبحرمیں ہے :

"و للملتقط أن ينتفع باللقطة بعد التعريف لو فقيرا وإن غنيا تصدق بها ولو على أبويه أو ولده أو زوجته لو فقراء وإن كانت حقيرة كالنوى وقشور الرمان والسنبل بعد الحصاد ينتفع بها بدون تعريف وللمالك أخذها ولا يجب دفع اللقطة إلى مدعيها إلا ببينة ويحل إن بين علامتها من غير جبر."

(کتاب اللقطة،  الانتفاع باللقطة، ج:1، ص:529، ط:دار إحياء التراث العربي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502102178

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں