بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حسیب الرحمن نام رکھنے کا حکم


سوال

"حسیب الرحمن"  نام رکھنا  کیسا ہے؟ کیا معنوی اعتبار سے یہ اللہ کریم کی ذات تک تو محدود نہیں۔ کیا شرعًا یہ نام رکھنا درست ہے؟

جواب

واضح رہے اللہ تعالی کے صفاتی نام دو طرح کے ہیں، جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:

1: ایک قسم کے وہ صفتی نام ہیں جو معنی کے اعتبار سے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ  کے ساتھ خاص  ہیں، اور ان ناموں کے ذریعے صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارا جاسکتا ہے، بندوں کے  لیے براہِ راست ان ناموں  کا استعمال کرنا یا اس نام سے پکارنا ومتصف کرنا جائز نہیں ہے، جیسے رحمٰن، رزاق، خالق، قیوم، وغیرہ، البتہ لفظ "عبد"  کی اضافت کے ساتھ استعمال کرنا جائز ہے،  جیسے کہ عبدالرحمن، عبدالرزاق۔

2: دوسری قسم کے وہ صفاتی نام ہیں، جو معنی کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ ان صفات کے ذریعے مخلوق کو متصف کرنا بھی جائز ہے، جیسے کہ بردبار  شخص کو حلیم کہنا، اپنے نمائندہ کو وکیل کہنا، تصویر نگاری کرنے والے کو مصور کہنا، وغیرہ۔

 " حسیب" کا معنی ہے: سب کو کفایت کرنے والا، اور یہ اللہ تعالیٰ کے ان صفاتی ناموں میں سے ہے جس  کا تعلق مذکورہ اقسام میں سے  دوسری قسم سے ہے (یعنی اس صفتی نام کے ذریعے معنی کے اعتبار سے مخلوق کو متصف کرنا یا مخلوق کے لیے اس نام کا براہِ راست بغیر "عبد "کے اضافت کے  استعمال کرنا جائز ہے)؛ لہذاکسی بچے کا نام صرف ''حسیب'' رکھنا یا " حسیب الرحمٰن"  رکھنا شرعی طور پر جائز ہے ۔

الفتوحات الربانية على الأذكار النواوية   میں ہے:

"(الحسيبُ) الكافي في الأمور من أحسبني إذا أعطاني أو كفاني حتى قلت: حسبي فعليه هو فعيل بمعنى مفعل كأليم وقيل: المحاسب يحاسب الخلق يوم القيامة فعيل بمعنى مفاعل كالجليس والنديم فمرجعه بالمعنى الأول إلى الفعل وبالثاني إليه إن جعل المحاسبة عبارة عن المكافأة إلى القول إن أريد بها السؤال والمعاتبة وتعداد ما عملوا من السيئات وقيل: الشريف و الحسب الشرف ."

(باب أسماء الله الحسنى، ج:3، ص:212، ط:دارالكتب العلمية)

الفتوحات الربانية على الأذكار النواوية   میں ہے:

"قال العاقولي في شرح المصابيح: ما نهى الشارع عن التسمي به، منه ما كان النهي لكون ذلك لايليق إلا باللهِ تعالى كملك الأملاك، ومنه ما نهى عن التسمي به لكونه خاصاً برسول الله -صلى الله عليه وسلم- كأبي القاسم لأنه ما يقسم بين العباد ما أعطاهم الله ومنه ما نهى عن التسمي به لغيره تفاؤلاً لصاحبه كحزن. فسماه صلى الله عليه وسلم سهلاً الحديث ومنه ما نهى عن التسمي به لغيره كبرة فغيره -صلى الله عليه وسلم ... واعلم أن التسمي بهذا الاسم حرام وكذا التسمي بأسمائه تعالى المختصة به كالرحمن والرحيم والملك والقدوس وخالق الخلق ونحوها."

(باب النهي عن التسمية بالأسماء المكروهة، ج:6، ص:109/113، ط:دارالكتب العلمية) 

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144206200374

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں