بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے لیے جس کی تعظیم کو اٹھتے تھے رسولِ ص عربی شعر کہنا


سوال

 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بیان کردہ روایت کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا  کو آتا دیکھ کر کھڑے ہو جاتے تھے،  گویا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تعظیماً کھڑے ہو جاتے تھے،  تو  س طرح کے اشعار لکھنا کیسا ہے: جس کی تعظیم کو اٹھتے تھے رسولِ ص عربی__ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں جو روایت ذکر کی گئی وہ  حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا  سے  مروی هے ،وہ فرماتی ہیں کہ  : 

”میں نے طور طریقہ، عادات و روش اور نیک خصلتی ، اور ایک روایت میں ہے کہ بات چیت اور کلام میں رسول کریم ﷺ کی مشابہت  حضرت فاطمہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا    سے زیادہ کسی شخص میں نہیں دیکھی،حضرت  فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا    جب آ پ صلی اللہ علیہ وسلم   خدمت میں حاضر ہوتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم    ان کی طرف (متوجہ ہوکر ) کھڑے ہو جاتے،  پھر ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیتے ، ان کو بوسہ دیتے (یعنی ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان پیشانی کو چومتے) اور پھر ان کو اپنے بیٹھنے کی جگہ پر بٹھاتے،  اسی طرح حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم  جب فاطمہ    رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ آپ کو دیکھ کر کھڑی ہو جاتیں،  آپ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیتیں،  پھر آپ کو بوسہ دیتیں (یعنی آپ کے دست مبارک کو چومتیں)، اور اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔“

شراح حدیث نے لکھا ہے کہ آپ ﷺ کا حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے لیے کھڑا ہونا ان کی طرف متوجہ ہونے اور ان کے استقبال کرنے کے لیے ہوتا تھا، اور ان کے بوسہ دینا اور اپنی جگہ پر  ان کے بیٹھنے کے لیے جگہ بنانے تعظیم، اکرام اور محبت کے لیے ہوتا تھا،  لہذا اس اعتبار سے   حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے لیے  مذکورہ شعر: ” جس کی تعظیم کو اٹھتے تھے رسولِ ص عربی... “ کہنے میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

مرقاة المفاتيح  میں ہے:

"وعن عائشة - رضي الله عنها - قالت: «ما رأيت أحدا كان أشبه سمتا وهديا ودلا. وفي رواية: حديثا وكلاما برسول الله - صلى الله عليه وسلم - من فاطمة، كانت إذا دخلت عليه، قام إليها، فأخذ بيدها فقبلها وأجلسها في مجلسه، وكان إذا دخل عليها، قامت إليه، فأخذت بيده فقبلته وأجلسته في مجلسها» . رواه أبو داود.

(وفي رواية: حديثا وكلاما) أي: أشبه تحدثا ومنطقا (برسول الله - صلى الله عليه وسلم - من فاطمة كانت) أي: فاطمة (إذا دخلت عليه، قام إليها) أي: مستقبلا ومتوجها (فأخذ بيدها فقبلها) أي: بين عينيها أو رأسها، والأظهر الأول لما رواه ابن عدي والبيهقي، عن ابن عباس مرفوعا " «من قبل بين عيني أمه كان له سترا من النار» " فكأنه - صلى الله عليه وسلم - نزلها منزلة أمه تعظيما لها. (وأجلسها في مجلسه) أي: تكريما لمأتاها (وكان إذا دخل عليها، قامت إليه، فأخذت بيده فقبلته) أي: عضوا من أعضائه الشريفة، والظاهر أنه اليد المنيفة (وأجلسته في مجلسها) أي: موضعها المهيأ للكرامة (رواه أبو داود)."

(7 / 2969،  باب المصافحة والمعانقة، :  دار الفكر، بيروت - لبنان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101537

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں